سیدہ کائناتؓ عصمت و عظمت کا مینارِ نور

   

ڈاکٹربی بی خاشعہ

تاریخِ اسلام میں چند عظیم شخصیات ایسی ہیں جن کی زندگی کے ہر پہلو میں نورِ ہدایت جھلکتا ہے، اور جن کے کردار سے قیامت تک انسانیت روشنی حاصل کرتی رہے گی۔ انہی مقدس نفوس میں سے ایک درخشاں اور لازوال نام حضرت فاطمۃ الزہراءؓ کا ہے۔ آپؓ وہ پاکیزہ اور مبارک ہستی ہیں جنہیں رسولِ اکرم ﷺ نے ”سیدۃ نساء اہل الجنۃ “ یعنی جنت کی عورتوں کی سردار قرار دیا۔ حضرت فاطمہؓ کی زندگی عورت کے لئے کامل نمونہ، بیٹی کے لئے بہترین تربیت، بیوی کے لئے مثالی کردار، ماں کے لئے تربیتِ اولاد کی زندہ تصویر اور کامل مسلمان کے لئے تقویٰ و طہارت کا عملی درس ہے۔
آپؓ رسول اللہ ﷺ اور اُم المؤمنین حضرت خدیجہؓ کی نورِ نظر بیٹی تھیں۔ رشتۂ نسب کے اعتبار سے آپؓ کا مقام کائنات کی مقدس ترین شخصیات میں ہی شمار ہوتا ہے۔ سیرت کی کتابوں میں یہ بات واضح ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنی اولاد میں سب سے زیادہ حضرت فاطمہؓسے محبت فرماتے تھے۔ سفر سے واپسی پر آپ ﷺ سب سے پہلے فاطمہؓ کے گھر جاتے، اور جب فاطمہؓ آتیں تو آپ ﷺ احتراماً کھڑے ہو جاتے اور اپنی چادر بچھا دیتے۔یہ احترام اس بات پر واضح دلیل ہے کہ فاطمہؓ کا مقام محض رشتہ نہیں بلکہ عظمت، تقویٰ، پاکیزگی اور ایمان کی بنیاد پر تھا۔
حضرت فاطمہؓ نے آنکھ کھولی تو گھر میں اسلام کی دعوت جاری تھی۔ کفارِ مکہ کی ایذائیں، فاقے، معاشرتی بائیکاٹ یہ سب مناظر ایک کمسن بچی کی آنکھوں کے سامنے گزرے، لیکن فاطمہؓ نے ہر تکلیف کو صبر اور یقین کے ساتھ برداشت کیا۔مکہ کی گلیوں میں جب نبی کریم ﷺ کو تکلیف دی جاتی تو یہ ننھی فاطمہؓ ہی دوڑ کر آتیں، اپنے بابا کو سہارا دیتیں، آنسو پونچھتیں اور تسلی دیتیں۔ اسی لئے آپ ﷺ انہیں ”اُمّ ابیہ “یعنی ”اپنے والد کی ماں“ اس محبت، دلجوئی اور خیال رکھنے کی وجہ سے فرماتے تھے۔
نبی کریم ﷺ نے اپنی پیاری بیٹی کا نکاح حضرت علیؓ سے فرمایا۔ دونوں کی گھریلو زندگی سادگی، محبت، خدمت اور اللہ کی رضا سے عبارت تھی۔گھر کے سارے کام حضرت فاطمہؓ اپنے ہاتھوں سے انجام دیتیں۔ کنویں سے پانی بھرنا، چکی پیسنا، بچوں کی تربیت کرنا یہ سب ذمہ داریاں وہ انتہائی صبر اور خوش دلی سے نبھاتیں۔
ایک مرتبہ ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے اور نبی ﷺ نے جب صورتِ حال جانی تو اپنی بیٹی کو خادم دینے کے بجائے تسبیحِ فاطمہ عطا فرمائی جس میں اللہ کی یاد اور روحانی طاقت کا خزانہ موجود ہے۔
اہلِ بیت کا ایثار تاریخ اسلام کا روشن باب ہے۔ جب تین دن فاقہ کی حالت میں بھی مسکین، یتیم اور قیدی کے لئے اپنا کھانا دے دیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے سورۃ الدہر کی آیات نازل کرکے اس عمل کی تحسین فرمائی: ”وہ لوگ اپنی خواہش کے باوجود کھانا کھلاتے ہیں…“
یہ واقعہ حضرت علیؓ، حضرت فاطمہؓ، حسنین کریمینؓ کے گھر کا ہے اور ان آیات نے فاطمہؓ کے ایثار کو قیامت تک زندہ کردیا۔