مرسلہ : عبداللہ محمد عبداللہ
فخر رسل تاجدار انبیاء حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نور نظر، حضرت خدیجہ الکبریٰ کی لخت جگر سیدہ کائنات حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء ۲۰؍ جمادی الثانی کومکہ معظمہ میں پیدا ہوئیں۔ آپ کا اسم گرامی فاطمہ رکھا گیا جس کے معانی ہیں اولاد اور غلاموں کو جہنم سے چھڑانے والی۔ فاطمہ نام، مبارک سمجھا جاتا تھا اور خیرو برکت کے لئے رکھا جاتا تھا۔جب سیدہ فاطمہ ؓپیدا ہوئیں تو آقائے دو جہاں ﷺکی خدمت میں ایک فرشتہ حاضر ہوا اور عرض کہ خداوند عالم نے فرمایا ہے کہ اللہ کی اس کنیز کا نام فاطمہ رکھو کہ اس کو میں نے شرف علم کی بناء پر منفرد بنایا ہے۔ لہذا آپؓ اپنے علم و عمل، دینداری اور حسب و نسب کے لحاظ سے زنان زمانہ سے منفرد تھیں۔ سیدہ ہر قسم کی برائی سے پاک و منزہ تھیں کیونکہ اسی عارفہ ربانی کے دل میں حب دنیا کا گزر ہوا ہی نہیں تھا۔ آپ بچپن سے ہی خاموش طبع تھیں۔ آپ اپنی خداداد ذہانت اور غیر معمولی عادات کی بناء پر چھوٹی عمر میں مشہور ہوگئی تھیں۔ آپؓ اپنے القاب سیدہ، زہراء، بتول، زکیہ، راضیہ، مرضیہ، طاہرہ جیسے اوصاف حمیدہ کے لحاظ سے اشرف و افضل تھیں۔ اس لئے آپؓ کو سیدۃ نساء العالمین اور سیدۃ نساء اہل الجنۃ کہا گیا۔ خاتون جنت نے آغاز اسلام کا زمانہ پایا جبکہ مسلمانوں پر کفار کا ظلم و ستم پورے زوروں پر تھا۔ آپؓ نے شعب ابی طالب میں سب کے ساتھ مسکینی میں بھوک و پیاس کی تمام تر تکالیف برداشت کیں۔حضرت سیدہ گھر کا کام خود سرانجام دیتی تھیں۔ صبح کے وقت آنحضور ﷺمسجد میں تشریف لاتے تو حضرت فاطمہ کی چکی چلانے کی آواز کانوں میں آتی تھی۔ حضور ﷺبے اختیار ہوکر دعامانگتے تھے کہ اے باری تعالیٰ! فاطمہ کو اس ریاضت اور قناعت کا اجر دے اور حالت فقر میں ثابت قدم رکھنا۔حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ حضرت فاطمہ جب حضور پاک ﷺکے پاس تشریف لاتیں تو حضور ﷺکھڑے ہوجاتے اور ان کی پیشانی چومتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے۔ سفر پر جاتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمہؓ کے پاس جاتے اور واپسی میں سب سے پہلے حضرت فاطمہؓ کے پاس تشریف لاتے۔