سیرت نبی ؐکو عام کرنا انسانیت کو عام کرنا ہے

   

حافظ سید عبد العظیم طاہر
دنیا میں مختلف علوم وفنون کا مقابلہ چل رہا ہے۔ اور ان کے سیکھنے والوں کو قدر و عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ لیکن ان تمام علوم کے ہونے کے باوجود معاشرے میں ادب و اخلاق کی کمی ہر جگہ محسوس ہوتی ہے۔اگر ہم دیگر علوم وفنون کی بات کریں تو تمام چیزیں دنیا کو مزین کرنے اور دنیاوی کام کاج اور کاروبار کی حد تک ہی کام میں آتی ہیں۔ اور اس سے انسان کی ذات و صفات میں کچھ فرق نہیں پڑتا اور وہ ویسا ہی راستہ اپناتا ہے جیسا معاشرے کا ماحول ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ ایسے کام کر گزرتا ہے جو نہ صرف مذہب بلکہ انسانیت کے بھی خلاف ہوتے ہیں۔
ایسے دور میں اگر ہم حضرت محمد ﷺ کی سیرت مبارکہ پر غور کریں۔ تو پتا چلے گا کہ اللہ تعالیٰ کا واضح ارشاد ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کی سیرت کو پڑھنا اور اسکو اپنانا زندگی کے ہر شعبے میں چاہے وہ بچہ ہو جوان ہو یا بوڑھا ہو سب کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔ اور اس کو اپنانے والا نہ صرف اُخروی ثواب کا حق دار ہوگا بلکہ اپنی دنیاوی زندگی اور سماج کو سنوارنے والا بھی بن جائے گا۔
اگر ہم آج کے دور پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ مذہب، رنگ، ذات پات وغیرہ سب تفریق کے اسباب بنے ہوئے ہیں اور تکبر قلوب انسانی میں اپنا مقام بنا چکا۔ حالانکہ انسانیت ان جیسے افعال کے مخالف ہے۔ دوسری طرف اگر ہم آپ ﷺ کی سیرت مبارکہ اور آپؐ کی تعلیمات پر غور کریں تو یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ حق تعالی نے بغیر کسی فرق کے تمام انسانوں کے لیے اس کو سیکھنا اور سکھانا آسان بنایا ہے۔ یہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ اس سیرت کو اپنانے والا بھی پاک ہو جائے گا۔ اور سماج میں ایک کامل انسان نظر آئے گا۔
اگر ہم آپﷺ کی سیرت مبارکہ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ نبوت کا آپؐ نے اعلان تو اپنی عمر کے۴۰ سال بعد کیا لیکن اس سے قبل آپؐ نے اپنے اخلاق کے ذریعے کئی ایسے کام انجام دیئے جو فرد واحد کے لیے ناممکن تھے ، ان ہی میں سے ایک واقعہ کعبۃ اللہ کی تعمیر کا ہے۔ کہ جب حجر اسود کو رکھنے کے لیے تمام قبیلوں میں جھگڑا ہوا تھا اور قریب تھا کہ یہ ایک بڑی جنگ میں تبدیل ہوجائے ، آپؐ نے ایک ایسی تجویز پیش کی جس کو سب نے قبول کیا کہ آپؐ نے تمام قبیلوں کو مساوی حق عطا فرمایا جو آپؐ کے اخلاق کی بہترین مثال ہے۔ اسکے برخلاف اگر آپؐ چاہتے تو اپنے قبیلے کو مقدم رکھ سکتے تھے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ ؎
ہر ظلم کے بدلے میں آقاؐ نے دعائیں دیں
اخلاق سے پھیلا ہے اسلام مدینہ میں
اگر ہم آپؐ کی سیرت کو یہ عنوان دیں تو غلط نہ ہوگا کہ ’’ بے مثل انسان کے بے مثال کردار ‘‘۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ آپ ﷺ کی سیرت میں کئی ایسی خوبیاں اور اچھائیاں شامل ہیں کہ جس کی وجہ سے آپؐ کی سیرت کو عام کرنا گویا کہ انسانیت کو عام کرنا ہے ۔
مثلاً ، بھائی چارگی، رشتوں میں بہتری، آداب زندگی اور اصلاح معاشرے کے طریقے شامل ہیں۔ جسکی وجہ سے سیرتِ نبی ﷺ کو عام کرنا اور اس پر عمل کرنا ایک بہترین ذریعہ ثابت ہوگا۔