سیل فون :مصیبت بھی راحت بھی!

   

ابوزہیر حافظ سید زبیر ہاشمی نظامی
اِس دنیائے فانی میں دورِ جدید کا عالَمی فتنہ کیا ہے ؟ وہ عالَمی فتنہ یہ ہے کہ ’’کفر نے مذہبِ اسلام اور ایمان کو لوگوں کی زندگیوں سے نکالنے کیلئے اِس وقت ایک سائبر جنگ شروع کردی ہے‘‘۔ اِس سائبر فتنے کے دو ہتھیار ہیں۔ ۱۔ انٹرنیٹ ۲۔ سیل فون
پہلا ہتھیار انٹرنیٹ کا ہے۔ اِس کو تو تحریر میں ’’جال کے اندر داخل ہوجاؤ‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ اِس انٹرنیٹ نے دنیا میں کتنی تباہی مچا رکھی ہے، کتنوں کے ایمان و اسلام کو کمزور کر رہا ہے، کتنوں کو ایمان و اسلام سے محروم کر رہا ہے؟ اسکا اندازہ اہل علم و اہل عقل ہی جان سکتے ہیں۔
بے حیائی، عریانی، فحاشی اور بے دینی اتنی عام ہوگئی کہ انٹرنیٹ کے اوپر ننگےبدن والوں کو گھر بیٹھے دیکھ رہے ہیں۔ اب مُلک مقفل یعنی لاک ڈاؤن کے بعد سے تو اداروں کے انتظامیہ کی طرف سے یہی زور دیا جارہا ہے کہ انٹرٹیٹ سے فلاں فلاں معلومات لے کر آؤ۔
اب بتلاؤ کہ جو بندہ کمپیوٹر کھول کر کام کر رہا ہو اور سامنے اسکرین پر ننگی تصاویر آجائیں تو اُس بندے کا ایمان کیسے بچے گا اور نظروں کی حفاظت کیسے ممکن ہوگی؟
انٹرنیٹ تو اتنا عام کر دیا گیا ہے کہ نہ صرف بچے،بچیاں، نوجوان بلکہ اکثر مرد و خواتین بھی گھنٹوں اسکرین کے سامنے بیٹھ کر نہ جانے کیا کیا دیکھ رہے ہونگے۔ فیس بُک، واٹس ایپ، انسٹاگرام اور نہ جانے کیا کیا ایپ آچکے ہیں، سب کے سب ان تمام انٹرنیٹ سے مربوط اشیاء کے ذریعہ ایک دوسرے سے رابطہ رکھے ہوئے ہیں۔
دوسرا ہتھیار سیل فون ہے۔ اس کے بارے میں اگر یہ کہا جائے تو بعید نہیں کہ ’’جہنمی آلہ (فون)‘‘ ہے۔ شیطان کے ہاتھ میں انسان کا ایمان برباد کرنے کیلئے تاریخ میں کبھی ایسا مہلک ہتھیار نہیں آیا تھا،جو یہ سیل فون کی شکل میں مصیبت آئی ہے۔سیل فون عالمی سطح پر ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ یہ صرف ایک رابطے کا آلہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک فتنہ بن گیا ہے جو معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کر رہا ہے۔ سیل فونز کے استعمال میں اضافہ اور اس کے منفی اثرات پر بات کرتے ہوئے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک عالمی چیلنج ہے۔
سیل فون ضرورت بھی ہے ،مصیبت بھی اور راحت بھی۔ اب جس کو دیکھو وہ سیل فون کے ذریعہ مصروف نظر آرہا ہے۔ کیا روزگار سے جڑا ہوا، کیا بیروزگار، کیا بیٹھنے والا، کیا چلنے والا۔ اب توحد یہ ہوگئی ہے کہ گاڑی چلاتے چلاتے بھی سیل فون کا استعمال عام ہوگیا۔ نہ اپنی موت کی فکر اور نہ راستہ سے گزرنے والوں کی فکر۔ نوجوان گھنٹوں غیرمحرم سے باتوں میں لگے رہتے ہیں۔ نہ اپنے وقت کا خیال، نہ ذمہ داریوں کا احساس اور نہ ہی اپنے اسلام و ایمان کی فکر۔ اب بتلائیں کہ جو قوم اِن مہلک فتنوں میں پڑجائے، وہ قوم کیا پڑھے گی اور کیا آگے بڑھے گی؟
سیل فون کے منفی اثرات میں سے چند ایک : ۱ : معاشرتی تعلقات میں کمی: سیل فون کے استعمال کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرنے کی بجائے فونز پر زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ اس سے تعلقات کمزور ہو جاتے ہیں۔ ۲ ۔ سماجی تعاملات میں کمی: سیل فونز کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے سے بات چیت کرنے کی بجائے اپنے فونز پر فوکس کرتے ہیں۔ اس سے سماجی تعاملات کم ہو جاتے ہیں۔ ۳ ۔ طبی صحت پر اثرات: سیل فونز کی وجہ سے لوگ لمبے عرصے تک فونز کا استعمال کرتے ہیں جس سے ان کی جسمانی اور ذہنی صحت پر برے اثرات پڑتے ہیں۔ ۴ : تعلیم پر اثرات: سیل فونز کی وجہ سے طلباء کی توجہ کلاسوں سے ہٹ جاتی ہے اور ان کی تعلیم پر منفی اثر پڑتا ہے۔
اے گوگل کے پیروکارو! جہاں اِس عالَمی فتنے کے ذریعے لوگ اللہ سے دور، رسول سے دور، دین سے دورہوتے جارہے ہیں، وہیں شیطان کے قریب، شہوت کے قریب، بے دینوں کے قریب ہوتے جارہے ہیں۔ انٹرنیٹ اور سیل کا فون کا استعمال کریں، ضرور کریں، مگر دائرۂ شریعت میں رہکرکریں ۔ یاد رکھیں! سیل فون، سانپ اور بچھو سے زیادہ خطرنا ک ہے۔ سانپ اور بچھو کے ڈسنے سے موت واقع ہوسکتی ہے، مگر سیل فون کے ڈسنے یعنی شرعی حدود پار کرنے سے ایمان کی موت واقع ہوسکتی ہے۔
سیل فون ایک عالمی فتنہ ہے جو معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کر رہا ہے۔ اس کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے ہمیں حدود مقرر کرنا چاہئے۔ سیل فون کے استعمال کے لیے محدود وقت مقرر کریں، والدین بچوں کی تعلیم کو ترجیح دیںاور سیل فون کے استعمال کے بارے میں مفید مشوروں سے نوازیں ۔ معاشرہ میں سیل فونز کے استعمال کی وجہ سے صحت پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں آگاہی پھیلائیں اور سیکورٹی کے مسائل سے بچنے کیلئے اقدامات کریں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی امان میں رکھے اور نیک توفیق عطا فرمائے۔ آمین