سی اے اے کے خلاف 140 درخواستیں

   

Ferty9 Clinic

بجھتے جاتے ہیں آرزو کے چراغ
ہو نہ جائے تری نظر بدنام
ہندوستان کے جمہوری ، دستوری اور سرکاری اداروں کی بے حسی ، سرکاری غلامی میں انتہائی حقیر حرکت کرنے کے واقعات میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے ۔ مودی حکومت نے ملک کی اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کو پریشان کرنے کے لیے گذشتہ سال شہریت ترمیمی قانون لایا تھا ۔ این آر سی ، سی اے اے اور این پی آر کے مسئلہ پر دہلی کے شاہین باغ میں کئی ماہ تک احتجاج کیا گیا ۔ اس کے علاوہ شہریت ترمیمی قانون کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں زائد از 140 درخواستیں داخل کی گئیں تھیں ۔ سپریم کورٹ نے دسمبر 2019 میں اس قانون کو روبہ عمل لانے پر حکم التواء دینے سے انکار بھی کیا تھا ۔ لیکن ایک ذمہ دار عدالت کو اپنے فرائض کی ادائیگی میں غفلت کا شکار ہوتے دیکھا جارہا ہے ۔ عدالتیں جب برسر اقتدار سیاسی طاقت کے آگے ماتھا ٹیکنے لگتی ہیں تو انصاف رسانی کے تمام اصول بالائے طاق رکھے جاتے ہیں ۔ سپریم کورٹ میں داخل کردہ درخواستوں کو تقریبا ایک سال پورا ہورہا ہے لیکن ان درخواستوں کی سماعت میں تاخیر کی جارہی ہے ۔ تمام شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والوں نے مودی حکومت کے کالے قانون سی اے اے کے خلاف چیلنج کرتے ہوئے درخواستیں داخل کی تھیں ۔ عدلیہ سے انصاف کی امید کے ساتھ گذشتہ ایک سال سے تمام درخواست گذار اپنی درخواستوں پر عدلیہ کے ردعمل کا انتظار کررہے ہیں ۔ تاخیر کی وجہ سے شدید مایوسی بھی ہورہی ہے ۔ پارلیمنٹرین جئے رام رمیش نے سی اے اے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی عاجلانہ سماعت کی امید ظاہر کی لیکن ان کی امید کو اس وقت دھکہ لگا جب 3 مارچ 2020 کو ان درخواستوں پر غور کرنے کے بجائے عدالت نے سابری مالا مندر کیس کے زیر التواء درخواستوں پر نظر ثانی کی سماعت کا فیصلہ کیا ۔ اس کے بعد لاک ڈاؤن اور کورونا وبا نے عدلیہ کے کام کاج میں خلل پیدا کردیا اور سی اے اے کے خلاف درخواستیں سرد خانے کی نذر ہوگئیں ۔ اس سی اے اے قانون کے خلاف مشرقی دہلی میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہیں جن میں کروڑہا روپئے کی املاک تباہ اور درجنوں جانیں صائع ہوئیں لیکن عدالت عالیہ نے سی اے اے کی نازک صورتحال کو نظر انداز کردیا ۔ یہ کیس عدلیہ کی فوری توجہ چاہتا ہے ۔ قانون میں ترمیم کے لیے حکومت کو ہدایت دینا یا قانون کے خلاف پیش کردہ چیلنجس کا جائزہ لے کر کوئی ٹھوس فیصلہ سنانا عدلیہ کا کام ہے ۔ سی اے اے کو ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف لایا گیا ہے۔ انڈین یونین مسلم لیگ کے بشمول کئی سیاسی پارٹیوں اور خانگی تنظیموں نے سپریم کورٹ پر بھروسہ اور یقین کر کے سی اے اے کو چیلنج کیا تو ان کی تمام درخواستوں کو لیت و لعل کا شکار بنادیا گیا ۔ سوال یہ ہے کہ اس ملک سے کسی بھی شہری کو محض قدیم وابستگی کا ثبوت نہ پیش کرنے پر ملک بدر کرنے کا فیصلہ کسی بھی حکومت کے لیے آسان ہے ؟ مودی حکومت نے اس نیت اور سازش کے ساتھ سی اے اے کو نافذ العمل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس لیے ملک اور قوم کے بہتر مفاد کو ملحوظ رکھتے ہوئے سپریم کورٹ کو جلد سے جلد اس کیس کی یکسوئی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ ملک کی تمام عدالتوں کے لیے سپریم کورٹ کے فیصلے اور احکامات ایک قانونی ترغیب ہوتے ہیں لیکن جب عدالت عظمیٰ ہی شہریوں کی درخواستوں کو تاخیر کا شکار بنادے تو پھر ملک کی چھوٹی اور تحت کی عدالتوں کا کیا ہوگا ؟ سی اے اے نے مسلمانوں کے ماسوا تقریباً 6 مذہبی طبقات کو ہندوستان میں داخل ہونے اور شہریت حاصل کرنے کی اجازت دی ہے ۔ پاکستان ، افغانستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے ہندوؤں کو شہریت دی جائے گی ۔ ہندوستان میں داخل ہوئے افراد کو ان کے مذہب کی بنیاد پر مطلب براری کے تحت نشانہ بنایا جائے تو یہ دستور کے بنیادی ڈھانچہ کے مغائر ہے ۔ سپریم کورٹ کو ملک کے آئین کے تحفظ کے لیے آگے آنے کی ضرورت ہے ۔ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اس لیے اس ملک کی شناخت بھی سیکولر ہے ۔ عدلیہ اسی نکتہ پر غور کرتے ہوئے سی اے اے کے خلاف فیصلہ سناتی ہے تو یہ ہندوستان کے حق میں بہتر ہوگا ۔ ورنہ جس سازش کے تحت سی اے اے تیار کیا گیا ہے اس کے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے ۔ اب سپریم کورٹ کو سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے سی اے اے کے خلاف چیلنج کرتے ہوئے داخل کردہ درخواستوں کی عاجلانہ یکسوئی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔۔