سی پی آئی (ایم) کی ’ایک ملک کا ایک انتخاب‘کی مخالفت

,

   

نئی دہلی، 19 جون (سیاست ڈاٹ کام) مارکسی کمیونسٹ پارٹی (سی پی ایم) نے ‘ایک ملک ایک انتخابات’ کے تصور کو غیر جمہوری اور غیر وفاقی قرار دیتے ہوئے انتخابات میں وسیع تر اصلاح کرنے اور کالجیم کے ذریعہ الیکشن کمیشن کی تشکیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ پارٹی کے جنرل سکریٹری سیتارام یچوری نے چہارشنبہ کو وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے بلائی گئی میٹنگ کی تمام جماعت کے اجلاس میں اپنے نوٹ میں یہ مطالبہ کیا۔ مسٹر یچوری نے نوٹ میں کہا ہے کہ ملک میں آئین نافذ ہونے کے بعد لوک سبھا انتخابات اور اسمبلی کے انتخابات کے ساتھ ساتھ ہوئے لیکن مرکزی حکومت کی طرف آئین کے آرٹیکل 356 کے استعمال سے لوک سبھا کے ساتھ اسمبلی کے انتخابات الگ ہونے لگے اور 1959 میں پہلی حکومت کیرالہ کی تھی جو برخاست کی گئی تھی ۔ اب ‘ایک ملک ایک انتخابات’ کے لئے آئین میں چھیڑ چھاڑ کی جائے گی اور ریاستوں میں مرکزی حکومت کا دخل بڑھے گا جس سے وفاقی نظام متاثر ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ لوک سبھا اور اسمبلی کی مدت کو کم کرنا یا بڑھانا غیر آئینی اور غیر جمہوری ہو گا کیونکہ لوک سبھا درمیان میں تحلیل ہونے کے بعد اس کی باقی مدت مکمل ہونے تک صدر کابینہ کی مدد سے ملک چلائیں گے اور ریاستوں میں اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد اس کی باقی مدت مکمل ہونے تک گورنر حکومت کو چلائے گا۔ سیتا رام نے کہا کہ ایک تجویز یہ بھی آئی ہے کہ لوک سبھا یا اسمبلی دو سال کے بعد تحلیل ہونے پر ان دونوں کے انتخابات صرف تین سال کے لئے کرائے جائیں تاکہ اگلی بار ایک ساتھ الیکشن سب کا ہوسکے ۔ انہوں نے کہا کہ لا کمیشن کے سامنے اس طرح کی تجویزآئی ہے جس میں عدم اعتماد کی تحریک منظور ہونے کی صورت میں ایوان میں منتخب کئے جانے کی تجویز بھی پیش کی جانی چاہئے ۔ اس طرح ایک ساتھ الیکشن کرائے جانے کے نام پر یہ سای تجویزیں گورنر اور مرکزی حکومت کی مداخلت کو بڑھائیں گے اس لئے ہم ‘ایک ملک ایک انتخابات’ کی مخالفت کرتے ہیں۔ سی پی ایم کے لیڈر نے کہا کہ اس طرح کے کام کرنے کی جگہ انتخابات میں پہلے جامع اصلاحات ہونے چاہئے اور پہلے الیکشن کمیشن کی تشکیل کے لئے ایک کالجیم بنایا جائے ۔ پارٹی کے اخراجات کو امیدوار کے اخراجات میں شامل کیا جائے ، انتخابی بانڈ ختم کئے جائیں اور 50 فیصد وي وي پیٹ اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا ملان ہو۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں آج تک 50 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کر کے کوئی سرکار مرکز میں نہیں بنی لہذا ہمیں تناسب نمائندگی کے نظام اپنانے پر غور کرنا چاہئے ۔ انہوں نے بڑھتی ہوئی بے روزگار، نج کاری، ، لیبر قانون، معیشت میںاستحکام کے علاوہ 115 پسماندہ اضلاع کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا۔