شادی ایک خوبصورت رشتہ

   

سید شمس الدین مغربی
شادی کے لفظی معنی خوشی کے ہیں اور یہ نبی کریم ؐکی سنت مبارکہ ہے۔ شادی دلہا اور دلہن کی زندگی کی نئی شروعات کرنے والا ایک حسین رشتہ ہے۔ مذہب اسلام نے بنی نوع انسان کو بے حیائی اور زنا سے بچانے کیلئے شادی کا حکم دیا اور اس کو نہایت آسان بنایا ہے۔ بالغ ہونے کے فورا بعد مناسب رشتہ ملنے پر شادی کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نکاح میرا طریقہ ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اہل و عیال والی زندگی گزارنا اسلام کا ایک اہم اصول ہے۔ یہود و نصاریٰ اور ہندوؤں وغیرہ کا طریقہ یہ ہے کہ ان کے ہاں غیر شادی شدہ زندگی گزارنا اور بزعم خویش عبادت وریاضت میں مشغول رہنا افضل اور قابل تعریف سمجھا جاتا ہے۔ نکاح کا ایک روحانی فائدہ یہ بھی ہے کہ اولاد کی صحیح تربیت کر کے انہیں اسلامی معاشرے کے مفید ارکان بنانا بھی ایک اہم دینی خدمت ہے۔ اور دوسروں کو اچھے کاموں کی ترغیب دلانے سے خود سیدھی راہ پر گامزن رہنا آسان ہو جاتا ہے۔ مسلمانوں کیلئے اولاد کی کثرت شرعاً مطلوب ہے لہٰذا اس کے لیے کوشش کرنا یعنی نکاح کرنا اور ازدواجی تعلقات قائم رکھنا بھی شرعا مستحسن ہے۔ ہمارے معاشرے میں جب بچے پڑھ لکھ کر قابل بن جاتے ہیں اور کمانے لگتے ہیں تو والدین ان کی شادی کیلئے فکر مند ہو جاتے ہیں اور اپنی اولاد کیلئے بہتر و مناسب رشتہ دیکھنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر شادی ہو جاتی ہے۔اللہ کے دین میں شادی کیلئے صرف نکاح اور ولیمہ ہے۔ نکاح کے بعد صرف گھر کے چند افراد (یعنی دلہا اور اس کے ماں باپ) دلہن کو اپنے گھر لے جائیں، بارات کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بیٹی والوں پر ظلم مت کریں کیونکہ ! ظلم قیامت کے دن اندھیروں کا باعث ہوگا. اب سوال یہ ہے کہ دلہا اور دلہن شادی کے اس خوبصورت رشتہ کو بخوبی نبھا پائیں گے یا نہیں۔ موجودہ دور میں کئی شادیاں ناکام ہو کر رہ گئیں جس کی کئی وجوہات ہیں۔ جس پر غور کرنا بہت ہے۔ بنی اور بیوی نا کی وجہ سے میں بہت ضروری ہے۔ کئی گھرانوں میں شوہر اور بیوی میں نا اتفاقیوں کی وجہ سے دونوں میں علحدگی ہو جاتی ہے۔ دوسری طرف بہو کی ساس سے نہیں بن رہی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے شوہر سے علحدگی اختیار کرتے ہوئے اپنے میکے میں رہنے کو ترجیح دے ہے۔ تیسری اہم بات جو شوہر اور بیوی کو ہمیشہ کیلئے ایک دوسرے سے علحدہ کر دیتی ہے وہ ہے طلاق جو اللہ کے نزدیک بے حد نا پسندیدہ عمل ہے۔ موجودہ دور میںاور بھی کئی وجوہات ہیں جو نا قابل بیان ہیں اور پچاس فیصد مسلم گھرانے ان مسائل کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں جن کا حل ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن ہم مومن بھائیوں اور بہنوں کو امید نہیں چھوڑنی چاہئے بلکہ اس بات کی فکر کرنی چاہئے کہ ان مسائل کو کس طرح حل کیا جائے۔ معاشرے کا ہر فرد اگر اس بات کا عہد کرے کہ شوہر اور بیوی کے درمیان تا اتفاقیوں کو اسلامی طریقے سے حل کر کے ان دونوں میں صلح کرادی جائے تو کئی گھرانے برباد ہونے سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ میں حدیث سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی تین طرح کے لوگوں کی مدد فرماتا ہے : وہ جوان جو عفت و پاکدامنی کی نیت مالک سے نکاح کے کرنے کا ارادہ کرے، وہ اسے ہر ممکنہ طور پر نبھانے کا جتن کرے اور وہ شخص جو د ہے وہ شخص جو دین کی سر بلندی کیلئے جہاد کیلئے نکلے۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے جوانوں کی جماعت ! تم میں سے نکاح اور بیوی کے بھی حق کو ادا کرنے کی استطاعت رکھے اس کو شادی کر لینی چاہئے۔ (شادی کرنا) نگاہ کو پست رکھنے اور شرم گاہ کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔ جو آدمی شادی نہ کر سکتا ہو اس کو روزہ رکھنا چاہئے یہ شہوانی طاقت کو ختم کرنے کا باعث ہے‘‘۔ اگر آپ کی شادی میں پریشانیاں پیدا ہوجائیں تو اس کا شرعی حل نکالا جائے ۔ عدالت سے رجوع ہونے کی ضرورت نہیں ( اگر اسلامی ملک ہو تو ایسا کیا جاسکتا ہے ) کہا جاتا ہے کہ گھر کے جھگرے گھر میں ہی نمٹا لئے جائیں ۔ ایسا کون سا معاشرہ ہے جہاں نااتفاقیاں نہیں ہوتیں لیکن عقلمنداور دیانتدار وہی ہے جو ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہوئے ( میاں بیوی کا اور بیوی میاں کا ) مسائل کو ایسے انداز میں سلجھائیں کہ اس کا اثر ان کی اولاد پر ( اگر ہے تو ) بھی نہ پرے اور اولاد کو یہ احساس نہ ہو کہ ہمارے والدین ہمیشہ لڑتے رہتے ہیں ۔ اس طرح ان کی نشو و نما میں کوئی تناؤ پیدا نہیں ہوگا اور وہ بھی دیگر نارمل بچوں کی طرح اپنی زندگی گزارسکیں ۔ ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ والدین کے جھگڑوں کا سبب سے زیادہ اثر اولاد پر پڑتا ہے ۔