شادی کے جوڑے پر ارمانوں کا رنگ

   

Ferty9 Clinic

موسم سرما میں ہی شادیوں کا سیزن شروع ہو جاتا ہے ۔ ڈھول،بینڈ باجا،جگمگاتی روشنیاں،دیگیں ہر گلی محلے میں نظر آنے لگتی ہیں۔شادی ہر لڑکی کی زندگی کا سب سے خاص اور یادگار ترین موقع ہوتا ہے ۔ اس کا حق ہے کہ ان لمحات میں وہ سب سے منفرد نظر آئے۔لڑکیاں تو اس دن کیلئے اپنی پوری زندگی انتظار کرتی ہیں،منصوبے ترتیب دیتی ہیں،فیشن میگزین کی مدد سے نئے اور مقبول فیشن پر نظر رکھتی ہیں۔ شادی کا جوڑا کیسا ہو گا،اس کے ساتھ زیور کیسا بنے گا،پھول کس رنگ کے ہوں گے،دوپٹہ لینے کا انداز، میک اپ،بالوں کا جوڑا ،ہاتھ کی مہندی اور پیروں کی پائل کیسی ہو گی،ایک ایک چیز پر بھرپور توجہ دی جاتی ہے اور ان کا انتخاب پہلے ہی کر لیا جاتا ہے۔ شادی کے لمحات کو یادگار بنانے میں اور دلہن کو انفرادیت بخشنے میں کلیدی کردار عروسی لباس کا ہوتا ہے۔ عروسی لباس کی تیاری اور انتخاب پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔اسی لئے دلہن،اس کی سہیلیاں اور رشتے دار خواتین دن رات بازاروں کے چکر لگاتی ہیں اور عروسی لباس کو سب سے منفرد بنانے کیلئے فکر مند دکھائی دیتی ہیں۔اسی لئے شادیوں کا سیزن شروع ہوتے ہی ان کی مانگ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ جہاں تک برائیڈل ویئر میں رنگوں کی بات ہے تو پہلے وقتوں میں عروسی جوڑا صرف سرخ رنگ کا ہی تیار ہوتا تھا،اب تو بارات کے دن سرخ، فیروزی،سبزی مائل،گلابی،نیلا اور دوسرے رنگوں کے ملبوسات بنائے جاتے ہیں لیکن بارات یا نکاح کیلئے تو آج بھی سرخ لباس ہی دلہن کیلئے لازمی سمجھا جاتا ہے۔ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ ہمارے ہاں لال جوڑے کے علاوہ کسی دوسرے رنگ میں تو دلہن،دلہن لگتی ہی نہیں۔جس کی وجہ برصغیر کی روایات ہیں،اگر ہم جائزہ لیں تو ہند وستان میں بھی دلہنیں سرخ جوڑا یا ساڑھی زیب تن کرتی ہیں کیونکہ تقسیم سے پہلے ہند پاک اور بنگلہ دیش ایک ہی ملک تھے اس لئے اس دور کی روایات آج بھی جاری ہیں۔برصغیر میں دلہن کے سرخ رنگ پہننے کی وجہ یہ ہے کہ یہ رنگ خوشی اور گرم جوشی کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ لال رنگ دلہن کیلئے خوش قسمتی لے کر آتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ روایت تاحال ایسے ہی چلی آرہی ہے۔اس کے برعکس مغربی ممالک میں دیکھا جائے تو وہاں دلہنیں مفید رنگ کا لباس پہنتی ہیں۔جس کی وجہ یہ ہے کہ اٹھارویں صدی میں وہاں سفید رنگ امارت کی علامت سمجھا جاتا تھا اس لئے مغرب میں دلہنوں کیلئے سفید رنگ کے عروسی لباس کا رواج پڑ گیا جو آج بھی قائم ہے۔ ایک زمانے میں عروسی ملبوسات سلوائے جاتے تھے،مگر اب تیار شدہ ملبوسات کی مانگ ہے۔سلائی کڑھائی کے جھنجھٹ سے بچنے کیلئے اپنی استطاعت کے مطابق تیار شدہ عروسی ملبوسات خرید لیے جاتے ہیں مگر ملبوسات کے انتخاب میں کئی کئی روز لگ جاتے ہیں۔ شہر بھر کے بازار اور مارکیٹس کھنگالی جاتی ہیں،تب کہیں جا کر دلہن کو لباس پسند آتا ہے۔ گرمی، سردی کے عام ملبوسات کی طرح عروسی ملبوسات بنانے والے ڈیزائنرز بھی میدان میں اُتر آئے ہیں۔ان کی جانب سے برائیڈل ویک کا انعقاد بھی ہوتا رہتا ہے جن میں نت نئے عروسی ملبوسات کی نمائش کی جاتی ہے ۔ ڈیزائنرز ہی کی وجہ سے اب عروسی ملبوسات کی وضع قطع اور بناوٹ میں جدت آگئی ہے۔ آج سے تیس سال قبل دلہن کے لباس میں نقشی،دبکہ اور بڑے موتیوں جب کہ دوپٹے کے چاروں اطراف بھرا ہوا کام کیا جاتا تھا۔یہی کام آج کل پھر سے عروسی جوڑے کی زینت بنا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ قمیضوں پر جالی کے ٹکڑے بطور ڈیزائن بھی استعمال کیے جا رہے ہیں جو کہ بہت دلکش معلوم ہوتے ہیں ۔ساٹن سلک کی پٹیاں قمیضوں کے گھیرے، گلے، بازو اور دوپٹے کے کناروں پر لگائی جاتی ہیں۔مختلف رنگوں میں دستیاب یہ پٹیاں جوڑے پر لگانے کے بعد کسی قسم کے کام کی ضرورت نہیں پڑتی لیکن یہ پٹیاں صرف وہ لوگ لگواتے ہیں جن کا بجٹ کم ہوتا ہے۔ آج کل ماضی کا فیشن پھر لوٹ آیا ہے جالی کے دوپٹے،غرارے،چھوٹی اور لمبی قمیض حتیٰ کہ مون لائٹ بھی فیشن میں خاصا مقبول ہے۔رنگ کوئی بھی ہو عروسی جوڑے میں سب ہی رنگ اچھے لگتے ہیں لیکن لڑکیاں اس موقع پر سرخ رنگ کو آج بھی
دیگر رنگوں پر ترجیح دیتی ہیں۔سرخ رنگ میں دوسرے رنگ ملا کر جوڑے کی خوبصورتی کو مزید بڑھایا جاسکتا ہے ۔ لباس لال رنگ کا ہی ہونا چاہیے کیونکہ لال رنگ خوشی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور جب ایک لڑکی اپنی نئی زندگی شروع کرتی ہے تو اسے ایسے ہی رنگوں کا انتخاب کرنا چاہیے جو خوشی کا احساس بخشتے ہوں۔