شان رسالت ؐ میں گستاخی

   


ہندوستان میں مذہبی جذبات کو اس حد تک مشتعل کردیا گیا ہے اور عوام کے ذہنوں میں اس قدر زہر انڈیل دیا گیا ہے کہ انہیں سوائے فرقہ پرستی کے کچھ اور سوجھ نہیں رہا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ عام آدمی کے علاوہ عوام کی قیادت کرنے اور قانون ساز اداروں میں ان کی نمائندگی کرنے والے بھی اس مذموم حرکت کا ارتکاب دھڑلے سے کر رہے ہیں اور مسلمانوں کی دلآزاری اور دل شکنی کو انہوں نے اپنا معمول بنالیا ہے ۔ شان رسالت ؐ میں گستاخی کو ایک فیشن کی طرح اختیار کیا جا رہا ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ مسلمان ایسی حرکتوں کو قطعی برداشت نہیں کریں گے ۔ حضور اکرم ﷺ کی ناموس کی خاطر مسلمان اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار رہتا ہے ۔ مسلمان کیلئے اپنی جان ‘ مال ‘ اہل و عیال ‘ عزت و آبرو اورساری کائنات سے زیادہ محبوب ہستی اپنے پیارے نبی ؐ کی ہے ۔ مسلمان چاہے با عمل ہو یا بے عمل ہو ‘ سماج میں معروف ہو یا غیر معروف ہو وہ حضور اکرم ؐ کی ناموس کی خاطر سب کچھ لٹادینے اور قربان کردینے کیلئے تیار رہتا ہے ۔ تاہم حالیہ عرصہ میں دیکھا گیا ہے کہ ملک کے حالات کو پراگندہ کرنے اور امن و امان کو متاثر کرنے کیلئے منظم سازش کے تحت ایسی حرکتیں کی جا رہی ہیں۔ اس طرح سے مسلمانوں کے صبر کا امتحان لیا جا رہا ہے ۔ انہیں مشتعل کرنے کی ہر ممکن کوشش ہو رہی ہے ۔ مسلمانوں نے اب تک اپنے صبر و تحمل کو برقرار رکھا ہوا ہے ۔ وہ احتجاج ضرور کر رہے ہیں لیکن اغیار کی سازش کا شکار ہوئے بغیر امن و امان کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ شدت جذبات سے مغلوب ہونے کے باوجود امن کو متاثر نہیں کیا جا رہا ہے اور نہ ہی دیگر ابنائے وطن کے خلاف کوئی ریمارکس کئے جا رہے ہیں۔ جو بد بخت عناصر اس طرح کی حرکتیں کر رہے ہیں ان کے خلاف کارروائی کو یقینی بنانے کی جدوجہد کی جا رہی ہے ۔ ملک میں فرقہ پرست اور شر پسند عناصر کی جانب سے جو کوششیں مسلمانوں کو مشتعل کرنے اور پھر حالات کا استحصال کرنے کی ہو رہی ہیں ان کو مسلمانوں نے اپنے صبر و تحمل اور فہم و فراست کے ذریعہ اب تک تو ناکام ہی کیا ہے اور آگے بھی اسی طرح امن کو برقرا رکھتے ہوئے احتجاج درج کروانے کی ضرورت ہے ۔
مسلمانوں کا احتجاج اور اس کے بعد پولیس کی جانب سے کارروائیاں اپنی جگہ ہیں لیکن سب سے زیادہ افسوس بلکہ تشویش کی بات یہ ہے کہ ایسے بد بخت اور شرپسند عناصر کے حوصلے پست نہیں ہو رہے ہیں ۔ ان کے حوصلے بلند ہوتے جا رہے ہیں۔ انہیں ایسی حرکتوں سے جو سیاسی فائدہ ہو رہا ہے یا انہیں جس سیاسی فائدہ کی امید ہے اسی کی وجہ سے ایسی حرکتوں کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔ سماج میں اس تعلق سے شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے ۔ جو لوگ عوامی نمائندگی کے دعویدار ہوتے ہیں اور ذمہ دار عہدوں پر فائز ہوجاتے ہیں ان کیلئے ضابطہ اخلاق کا تعین کیا جانا چاہئے ۔ جو عناصر اس طرح کی مذموم حرکتوں کے ذریعہ اپنی سیاسی دوکان چمکانا چاہتے ہیں انہیں نا اہل قرار دینے کیلئے قانون سازی کی جانی چاہئے ۔ مذہبی جذبات کے استحصال کے ذریعہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے والوں کو ناکام کرنے کیلئے اس طرح کی قانون سازی ضروری ہے ۔ جب تک یہ قانون سازی نہیں ہوگی معمولی دفعات کے تحت گرفتاریاں یا پھر چند دن جیل کی قید سے ان کے حوصلے پست نہیں ہونگے ۔ یہ لوگ اس سے بھی سیاسی فائدہ حاصل کرنے سے گریز نہیں کرینگے ۔ سنجیدہ گوشوں میں یہ بات عام ہے کہ محض گرفتاری اس طرح کے مسائل کا حل نہیں ہوسکتی ۔ اس کیلئے جامع اور مبسوط اقدامات کی ضرورت ہوگی تاکہ ان عناصر کی سرکوبی میں کوئی کسر باقی نہ رہنے پائے اور یہ بدبخت ایسی حرکتوں سے اپنے لئے یا اپنی جماعت کیلئے سیاسی فائدہ حاصل نہ کرپائیں۔
حکومتوں اور نفاذ قانون کے اداروں کو حالات کی سنگینی اور نزاکت کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ مسلسل اشتعال انگیزیاں معاشرہ کیلئے بہتر نہیں ہوسکتیں۔ امن و امان متاثر کرنے کی کوششیں کرنے والوں کے خلاف محض ضابطہ کی کارروائیاں نہیں بلکہ سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے ۔ ایسے عناصر کو سخت سزائیں دلانے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی جانی چاہئے اور خود سماج میں بھی تمام فرقوںاور طبقات کو اپنے شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے بیمار ذہنوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ۔ ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی کی بجائے ان کی سرکوبی کی جانی چاہئے ۔ تبھی معاشرہ میں سکون بحال ہوسکتا ہے ۔ مذہبی جنونیت کو روکنا بہت ضروری ہے ۔