جسپال سنگھ
اک زمانہ گذرا ہمارے ایک خیر خواہ نے ہمیں اطلاع دی کہ ہم جب آفس میں ہوتے ہیں ہماری بیگم صاحبہ رکشا پکڑ کر جامع مسجد سے اردو بازار کی طرف جاتی ہیں۔ خبر پاتے ہی ہم چونکے، چونکنے کی وجہ بھی تھی۔ ہماری شادی کو ابھی ایک ماہ بھی نہ گذرا تھا کہ ہم نے انکے سرہانے کے اندر چھپے ہوئے دیوان غالب کو دیکھا تھا اور وہ بھی اردو میں ۔ اردو اب مسلمان بھی نہیں پڑھتے۔ ہوگی کسی زمانہ میں گنگا جمنی تہذیب کی گہوارا۔ ہم نے لاکھ دل کو سمجھایا۔ لیکن دل ہی توہے نہ سنگ ، یاخدا یہ جامع مسجد اور پھر وہاں سے اردو بازار اور وہ بھی ہمیں اطلاع دیئے بغیر۔ یہ کہیں لو جہاد والا معاملہ تو نہیں؟ پہرہ بٹھایا گیا۔ معلوم ہوا بیگم صاحب نہ صرف اردو کی کتابیں وہاں سے خریدتی ہیں بلکہ اسی علاقے میں علیگڑھ یونیورسٹی کے ایک سینٹر (Centre) سے انہوں نے ادیب فاضل اور ادیب کامل کے امتحانات بھی پاس کئے ہیں۔ شکر ہے ہم نے بجرنگ دل کو اطلاع نہیں دی۔ ایسا ہوتا تو ہماری بیگم اردو بازار میں دھر لی جاتیں اور وہ جو ایک خاص قسم کے لباس میں گھومتے ہیں دلی کے بانکے بن کر ان میں سے ایک دو پہلے تو پٹتے اور پھر گرفتار ہوتے۔ ضمانت تک نہ ہوتی۔ مانا سکھ مرد ہندو لڑکی سے شادی کرسکتا ہے اور ایک مسلمان لڑکی بندو سے لیکن مسلمان مرد کسی… توبہ توبہ لاحول پڑھیئے جناب …
اب آپ لازم یہ سوال کریں گے کہ گھر کی بات تھی بازار عام میں کیوں لارہے ہو؟ دراصل ہم اپنی بیگم سے بیحد نالاں ہیں۔ اس ماحول میں جبکہ ہر شخص اپنے لباس سے یا تو کوئی بوگی یا یوگنی ہے یا دہشت گرد۔ ہماری بیگم ہمیشہ اپنے سر کو ڈھانپ کر رکتھی ہیں۔ اب آپ ہی سوچہئے کہ ایک خاتن جو اردو کی دیوانی ہو۔ غالب پر جان چھڑکتی ہو وہ اگر سر ہی ڈھانپ کر رکھے تو کیا یہ ’’آ بیل مجھے مار‘‘ والی صورت نہ ہوگی؟ ہم نے لاکھ سمجھایا مگر وہ ہیں کہ کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ کچھ کہو تو تڑ سا جواب سن لو کہ سردار نپاں سر کوڈھانپ کر رکھتی ہیں۔ ہم نے کہا اس لباس میں تم ایک خاص مذہب سے منسوب ہوجاو گی اور کہیں نہ کہیں دھرلی جاو گی۔ لیکن صاحب آج کل کی عورت تو بس پردہ رکھنا ہے تو رکھنا ہے ۔ نہیں رکھتا تو نہیں رکھنا۔ کوئی سردارنی کو مسلمان سمجھ لے تو سمجھ لے لیکن صاحب یہ جو ہر روز لباس اور مذہب کی بنا پر کوئی نہ کوئی اپنی جان گنوارہا ہے اس وجہ سے ڈر لگتا ہے۔ کہیں کسی روز راستے میں ۔ خیر چھوڑیئے اور سنیئے۔
ٓآپ نے شاہین باغ کا نام سنا ہے؟ نہیں اسکا اقبال کے شاہین سے کوئی تعلق نہیں۔ ویسے بھی علامہ اقبال کاش میں تو کب کا مرچکا۔ ہم نے کہا بیگم یہ کیا ہورہا ہے۔ وہاں معلوم ہوا ہماری بیگم بھی جاتی ہے وہاں۔ ہم نے کہا مسلمان عورتیں ہیں سب تڑ سے بولیں میں مسلمان ہوں کیا ؟ سرداروںنے تو وہاں لنگر بھی لگادیا ہے۔ ہم نے کہا علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامیہ یونیوسٹی کے طالب علموںکاحال معلوم ہے؟ دونوں کا اسلام سے تعلق ہے۔ پولیس تمام مذاہب کے بچے پڑھتے ہیں وہاں ۔ تمہیں معلوم ہے علیگڑھ یونیورسٹی سے سب سے پہلا گریجویٹ کون تھا۔ وہ ہندو تھا۔ ہم نے کہا کسی بھاری بھرکم ٓدمی نے سن لیا تو نہ تم گھر کی رہوگی نہ ہم گھاٹ کے۔ بولیں وہ جو عورتیںکئی دنوں سے ٹھٹھرتی سردی میں سڑک پر بیٹھی ہیں بچوں کے ساتھ وہ کیا دشمن ہیں بھارت کی؟ کیا حق کی آواز بلند کرنا گناہ ہے کوئی؟ تم نے کہا کہتے ہیں پانچ پانچ سو روپئے لیتی ہیں۔ بولیں ان کی عورتیں لیتی ہوں گی جو یہ کہتے ہیں، ہم نے کہا عورت کی جگہ گھر کی چار دیواری میں ہے۔ بولیں تم اکبر الہ بادی ہوکیا؟ زمانہ کروٹ بدل چکا ہے۔ ایک نئی آواز بلند ہورہی ہے۔ اس کی چنگھاڑ دنیا سن رہی ہیں۔ تمہیں معلوم ہے داووس (Davos) میں جارج ساروز (George Saros) نے کیا کہا ہے؟ عورت اب ایک ماں ہی نہیں بچوںکی وہ اب انقلاب بھی پیدا کرتی ہے۔
ہم نے کہا شاہین باغ جاتی ہو جاٰ لیکن خدا کے واسطے وہاں ’’آزادی‘‘ کا نعرہ نہ لگانا نہیں تو دھر لی جاو گی۔ Sedition کے جرم میں۔ ہمارے محترم یو پی کے چیف منسٹر صاحب نے تو اس کا اعلان بھی کردیا ہے ’’آزادی‘‘ کا نعرہ لگاٰ اور حوالات میں جاو۔ بولے ’’آزادی‘‘ کا مطلب سمجھتے ہو؟ انگریزی میں اسے freedom کہتے ہیں اور ہمارآئین یہ کہتا ہے کہ ہر شخص کو آزادی ہے اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی۔ تم تو قانون داں ہو۔ ایمرجنسی (emergency) کے دنوں میں جبکہ اندرا گاندھی کی حکومت تھی کچھ لوگ چندیگڑھ میں سڑک پر کھڑے ‘‘ اندرا گاندھی مردہ باد‘‘ کے نعرے لگاتے پکڑے گئے۔ sedition کے چارج پر ۔ سپریم کورٹ نے کہا چونکہ ان نعروں سے امن و امان میں کوئی خلل نہیں پڑا لہذا sedition کا کیس نہیں بنتا۔ اب بتاٰ صرف ’’آزادی‘‘ کا نعرہ لگانا کیا ہمارے آئین اور قوانین کے خلاف ہے؟ کون سا قانون توڑ ہی ہیں وہ عورتیں؟ ہم نے کہا بیگم ہم پر کیوں برس رہی ہو۔ یوگی جی سے کہو نہ جاکر کہ آئین کا صرف Preamble ہی پڑھ لیں۔ بولیں ٓآئین ہے، قوانین ہیں۔ عدالتیں ہیں۔ ہم نے کہا بیگم ماحول ٹھیک نہیں ہے۔ تمہیں معلوم ہے وہ فیض احمد فیض کی نظم ’’ہم دیکھیں گے‘‘ وہ جو اس میں ’’بت توڑے جائیں گے‘‘ آتا ہے۔ معلوم ہے اس پر ایک کمیشن بیٹھ گیا ہے کہ ٓیا یہ ہندو دھرم کے خلاف ہے۔ ہماری بیگم پہلی بار مسکرائیں بولیں فیض کو وہ شعر یاد ہے۔
بنے ہیں اہل حو مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
ہم نے ہاتھ جوڑ کیا بیگم یہ شعر پھر نہ پڑھنا بس یہ دعا کرو کہ حکومت وقت اور عدالتیں قانون کے دائرے میں رہیں۔ اپنے ذاتی مفاد سے اوپر اٹھ کر ۔
ہماری بیگم اور سینکڑوں خواتین گود میں بچے لئے ہوئے اس وقت شاہین باغ میں ایک انصاف پسند ماحول کیلئے نعرے لگارہی ہوں گی۔ اس وشواس میں کہ حق کی ٓواز بلند کرنا کوئی گنا نہیں اور یہ کہ Dessent is the essence of democracy