شاہین باغ کے سامنے مودی۔شاہ نے گھٹنے ٹیکے، مگر…

   

ظفر آغا
شاہین باغ کو جتنی مبارکباد دی جائے اتنی کم ہوگی۔ کیونکہ شاہین باغ تحریک اپنی جدوجہد میں آدھی کامیاب ہو گئی۔ کل یعنی 4 فروری کو لوک سبھا میں ایک سوال کے جواب میں مرکزی وزیر داخلہ (جونیر) نتیانند رائے نے این آر سی اور این پی آر کے تعلق سے دو انتہائی اہم جواب دئیے جن کو زیادہ تر نیشنل میڈیا نے سرسری طور پر ہی رپورٹ کیا۔ این آر سی کے تعلق سے جواب دیتے ہوئے وزیر موصوف نے لوک سبھا میں فرمایا ’’حکومت نے نیشنل رجسٹر آف انڈین سٹیزن (این آر سی) بنانے کا قومی سطح پر ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔‘‘ اسی کے ساتھ ساتھ وزیر نے ایک دوسرے سوال کے جواب میں فرمایا ’’نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر) کی تیاری میں کسی قسم کا کوئی دستاویز دکھانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔‘‘
لوک سبھا میں وزارت داخلہ کی جانب سے وزیر موصوف کے دونوں بیان اس بات کے شاہد ہیں کہ مودی حکومت کم از کم فی الحال این آر سی اور این پی آر کے معاملے پر جھک گئی اور وزیر داخلہ امت شاہ جیسے گھمنڈی سیاست دان کو اس معاملے میں گھٹنے ٹیکنے پڑ گئے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ آخر کار نریندر مودی اور امت شاہ جیسے کٹر ہندوتواوادی لیڈران کو این آر سی اور این پی آر پر جھکنا پڑ گیا۔ اور اس کامیابی کا سہرا پوری طرح شاہین باغ کو جاتا ہے۔ کیونکہ شاہین باغ سے شروع ہونے والی سی اے اے اور این پی آر و این آر سی مخالف تحریک نے نہ صرف سارے ملک بلکہ ساری دنیا میں مودی حکومت کے خلاف ایسی زبردست فضا بنا دی کہ حکومت گھبرا گئی اور اس کو آخر عوامی دباو میں 4 فروری کو لوک سبھا میں وہ بیان دینا پڑ گیا جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔
حالانکہ اس بیان سے یہ واضح ہے کہ ابھی حکومت اپنے موقف سے ہٹی نہیں ہے۔ حکومت ابھی این آر سی اور این پی آر پر صرف دو قدم پیچھے ہی ہٹی ہے۔ مودی حکومت نے ابھی تک یہ یقین نہیں دلایا ہے کہ این آر سی اب ہوگا ہی نہیں۔ این پی آر کے تعلق سے ابھی صرف یہ واضح کیا ہے کہ کسی کو دستاویز دیکھانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ پھر اس سے بھی اہم تیسری بات یہ ہے کہ شہریت ترمیمی قانون 2019 میں کسی قسم کی پھیر بدل کرنے کے سلسلے میں مودی حکومت کی جانب سے کسی قسم کا کوئی اشارہ نہیں۔ شاہین باغ تحریک کی سب سے پہلی مانگ ہی یہی تھی کہ سی اے اے یعنی نیا شہریت قانون واپس لیا جائے۔ کیونکہ یہ قانون مذہب کو شہریت سے جوڑ کر ملک کے آئین کی خلاف ورزی کرتا ہے اور اس طرح آئین کے بنیادی ڈھانچے یعنی سیکولرزم کو کمزور کرتا ہے۔ اور یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے جس کے لیے شاہین باغ اور اسی طرز پر چلنے والی ملک بھر اور بیرون ملک تحریکیں سرگرم ہیں۔
لیکن پھر بھی 4 فروری کو حکومت کی جانب سے این آر سی و این پی آر کے سلسلے میں وزارت داخلہ کی جانب سے جو بیان آیا ہے، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ شاہین باغ نے مودی حکومت کے چھکے چھڑا دئیے۔ حکومت بلاشبہ گھبرا گئی ہے اور اس گھبراہٹ میں کم از کم فی الحال اس بلا کو کسی طرح ٹالنا چاہ رہی ہے۔ اور یہ شاہین باغ کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ یہ محض شاہین باغ میں پچھلے پچاس دنوں سے زیادہ اکٹھا ہونے والی عورتوں کے عزم و استقلال کا نتیجہ ہے کہ مودی جیسی سخت دل حکومت بھی گھبرا گئی۔
اس کے یہ معنی قطعاً نہیں ہے کہ حکومت نے این آر سی اور این پی آر کوپورے طور پر ختم کر دیا ہے۔ حکومت ابھی صرف پیچھے ہٹی ہے، یعنی یہ وہی حکمت عملی ہے جو آر ایس ایس اور بی جے پی نے رام مندر میں اختیار کی تھی۔ جیسے سنہ 1992 میں بابری مسجد گرا کر رام مندر تعمیر کے لیے زمین ہموار کر لی گئی تھی۔ لیکن رام مندر تعمیر کا کام عدالتوں میں چل رہے مقدموں اور دوسری سیاسی وجوہات کے سبب ٹال دیا گیا تھا۔ ویسے ہی نیاشہریت قانون بنا کر حکومت نے ہندو راشٹر کی بنیاد تو رکھ دی ہے، لیکن این آر سی اور این پی آر کے ذریعہ حکومت کا ہندو راشٹر کا جو ڈھانچہ بنا ہے اس کام کو عوامی دباؤ میں ابھی حکومت ملتوی کرنے کو تیار ہے۔
اس کے یہ معنی ہیں کہ حکومت دباؤ میں ہے۔ شاہین باغ تحریک نے حکومت کو کم از کم فی الحال این آر سی اور این پی آر پر گھٹنے ٹیکنے کو مجبور کر دیا ہے۔ حکومت کی اس مجبوری کے لیے صرف اور صرف شاہین باغ تحریک اور اس کی روح رواں عورتیںقابل تعریف ہیں جنھوں نے نریندر مودی اور امیت شاہ جیسے سخت دل سیاستدانوں کو دو قدم ہی سہی لیکن پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ اس کے لیے شاہین باغ اور وہاں بیٹھی شاہین صفت عورتوں کو جتنی بھی مبارکباد دی جائے کم ہے۔ ’قومی آواز‘ کی جانب سے ہم ایک بار اس کامیابی پر شاہین باغ تحریک کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اور ساتھ ہی ان کی تحریک کے بنیادی مقاصد یعنی سی اے اے واپسی کے دعا گو بھی ہیں۔