یہ دل کے زخم نہیں جگر کے داغ نہیں
راہِ حیات شمعیں جلا رہا ہے کوئی
شاہین باغ کے قریب فائرنگ
ہندوستان کی حقیقی ترقی کی فکر رکھنے والے قائدین کی جگہ فرقہ پرستوں نے لے لی ہے ۔ جس کے نتیجہ میں آج ملک کے ہر علاقہ میں احتجاج ہورہا ہے ۔ دہلی کے شاہین باغ احتجاج کو تقریبا دو ماہ ہوئے ہیں ۔ اس احتجاج کو ختم کرانے کی کوششیں ناکام ہوچکی ہیں ۔ اب انہیں گولیوں کے ذریعہ دھمکیاں دی جارہی ہیں ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی گیٹ نمبر 5 پر فائرنگ واقعہ یا اس سے قبل شاہین باغ اور جامعہ نگر میں ہوئی فائرنگ کے واقعات افسوسناک ہے ۔ مودی حکومت معاشی محاذ پر بری طرح ناکام ہے ۔ اس کے باوجود اس کا ہٹ دھرم رویہ ظاہر کررہا ہے کہ اس نے آئندہ 2024 کے انتخابات کی تیاری کے ساتھ دہلی اسمبلی انتخابات میں کامیابی کو یقینی بنانا بھی بی جے پی کے لیے ضروری ہے ۔ شاہین باغ کے خلاف بی جے پی کی انتھک جدوجہد جاری ہے ۔ اس نے اپنے حامیوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے ۔ اگر تشدد بھڑک اٹھتا ہے تو وہ طبقہ بھی پہلے سامنے آئے گا جو اس وقت مودی حکومت کی پالیسی کو پسند کرتے ہوئے موافق سی اے اے احتجاج کررہا ہے ۔ اتوار کی شب جامعہ ملیہ اسلامیہ کی گیٹ پر فائرنگ کرنے والوں نے جئے شری رام کے نعرے لگائے ۔ جس ملک میں رام کے نام کو محترم سمجھا جاتا ہے اس کو اس قدر نشانہ بنایا جاچکا ہے کہ وہ اپنی قسمت کو روتی ہوں گی ۔ کئی برس کے بن واس نے سیتا کو مقدس مقام پر پہونچایا تھا لیکن ان کے حامیںو نے ان کی قربانیوں کو فراموش کر کے ملک کو ایک خطرناک سمت میں لے جانے کا عہد کیا ہے ۔ دہلی کے اسمبلی انتخابات بی جے پی کے لیے کافی اہم ہیں وہ دہلی کی تخت سے عام آدمی پارٹی کو بیدخل کرنا چاہتی ہے ۔ دہلی کی پولیس پر اگرچیکہ بی جے پی حکومت کا کنٹرول ہے اس کے باوجود وہ شاہین باغ کے خلاف مظاہرے کرنے والوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے ۔ اس کے باوجود اروند کجریوال کی کامیابی کو یقینی سمجھا جارہا ہے ۔ کجریوال کی بڑھتی مقبولیت سے بی جے پی پریشان ہے ۔ کجریوال کو یہ انتخابات جیتنے کے لیے کئی ترقیاتی کاموں کا ثبوت پیش کرنا ہے تو بی جے پی صرف اپنے سیاسی عزائم کو بروے کار لانا چاہتی ہے ۔ اروند کجریوال عوامی آدمی ہیں ۔ عوام الناس سے جڑ کر انہوں نے کئی اچھے کام کیے ہیں ۔ لیکن ان کا وجود دہلی پر 30 سال تک حکومت کرنے بی جے پی کے خواب کے لیے شدید دھکہ ہے ۔ دہلی کے چیف منسٹر کی حیثیت سے اروند کجریوال نے عوام کی آواز کو مضبوطی عطا کی ہے ۔ بی جے پی کے لیے یہ دکھ کی بات ہے کہ دہلی کے عوام نے اسے مسترد کردیا ہے پھر بھی وہ سی اے اے کے خلاف شاہین باغ پر احتجاج کرنے والی خواتین کے ساتھ اظہار یگانگت کرتے ہوئے اروند کجریوال نے اپنی ریاست میں خوشحالی لانے کا وعدہ کیا ہے لیکن اس شاہین باغ نے بی جے پی کو اپنا فرقہ وارانہ کارڈ کھیلنے کا موقع دیا ۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران شاہین باغ کا بار بار نام لیا ہے ۔ شاہین باغ والوں کو غدار اور قوم دشمن قرار دینے کے لیے زور ہورہا ہے ۔ بی جے پی قائدین کی اشتعال انگیز تقاریر ’ گولی مارو سالوں کو شاہین باغ والوں ‘ کے نعرے کے ذریعہ دہلی انتخابات میں کامیابی کو یقینی بنا رہی ہے ۔ شاہین باغ کے احتجاج کو بی جے پی اپنے ہندوتوا پسند رائے دہندوں کو غلط تناظر میں پیش کر کے ایک علاقہ کے عوام کے ذہن کو تبدیل کرنے کی کوشش ہورہی ہے ۔ شاہین باغ کا احتجاج اب دہلی اسمبلی انتخابات کا مرکزی مقام بن گیا ہے ۔ اروند کجریوال کی کامیابی کو ناکامی میں بدلنے کی کوشش کرنے والی بی جے پی کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ اگر خود کجریوال نے اس کے خلاف محاذ کھولا تو پھر کامیابی ان کی ہی ہوگی ۔ بہر حال جامعہ ملیہ اسلامیہ ہو یا شاہین باغ یا جے این یو کا معاملہ اب دہلی انتخابات کے لیے جاری مہم کا اہم حصہ شاہین باغ کی نذر کردیا جارہا ہے تو پھر اپنے انتخابی مہم اور اس کے نتائج تک بی جے پی کو صبر و تحمل کے ساتھ برداشت کرنے کی عادت ڈالنی ہوگی ۔ بی جے پی حکومت نے قانونی تقاضوں کو پس پشت ڈالدیا ہے ۔ اس سے پیدا ہونے والا بھیانک بحران ختم کرنے کے لیے مودی حکومت کو سخت محنت کرنی پڑے گی ۔ مگر بی جے پی کے حق میں اب تک کوئی درست کام نہیں ہوا ہے ۔ اس لیے بی جے پی کے قائدین کو اشتعال انگیزی ترک کرتے ہوئے پرامن طریقہ سے مسئلہ سے نمٹنے کی کوشش کی جانی چاہئے ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ ، جے این یو اور دیگر یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلباء اور نوجوان ہی اس ملک کا اصل سرمایہ ہیں ۔ لہذا ان نوجوانوں کو اپنے مستقبل کی فکر رکھنی چاہئے ۔۔