شاہین باغ

   

کچھ ایسے بے نیاز مقاماتِ شوق ہیں
میری شکستہ پائی پتہ پوچھتی چلی
شاہین باغ
شاہین باغ پر احتجاج کو غلط رنگ دینے کی کوشش کرنے والے قائدین اور گُودی میڈیا نے اب اس حد تک گراوٹ کا ثبوت دینا شروع کیا ہے کہ ان کی نفرت انتہا کو پہنچ گئی ہے ، ان قائدین نے زہرافشانی کرتے ہوئے کہا کہ شاہین باغ پر دھرنے پر بیٹھی خواتین کی عصمت ریزی کی جائے اور انہیں گولی ماردی جائے۔ بی جے پی کے کئی قائدین کے ناپاک ذہنوں میں جو بات پائی جاتی ہے اس کا برملا اظہار کیا جارہا ہے۔ دارالحکومت دہلی کے اسمبلی انتخابات کیلئے جاری مہم میں بی جے پی قائدین، ارکان پارلیمنٹ نے اپنی گندی ذہنیت اور مجرمانہ سوچ کا سہارا لینا شروع کیا۔ بعض چینلس بھی شاہین باغ کے احتجاج کو معمولی قرار دے کر بدنام کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیںکررہے ہیں۔ بی جے پی قائدین اور اس کے بکاؤ میڈیا نے سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف عوام کے غم و غصہ کو نظرانداز کرکے شاہین باغ کے احتجاج کو محض مودی حکومت کی چاپلوسی میں غیر اہم بتانے کی کوشش کررہا ہے تو پھر وہ خواب غفلت میں ہیں، اس طرح کے احتجاج کی تاریخ رقم ہوئی ہے اور یہ ہندوستان کی تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔ بی جے پی اور اس کا بکاؤ میڈیا اپنی پھونک سے شاہین باغ کا چراغ بجھانے کی کوشش کررہا ہے لیکن وہ کامیاب نہیں ہوپارہا۔ ہر روز پہلے سے زیادہ تعداد میں لوگ جمع ہوکر شاہین باغ کی خواتین جن میں معمر دادیاں، نانیاں، مائیں ، بہنیں، بیٹیاں ہیں کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں۔ بی جے پی کے لوگوں کو چند رٹے رٹائے فقرے دیئے گئے ہیں جن کو وہ اپنے مخصوص جلسوں اور گُودی میڈیا کے پلیٹ فارم پر دہراتے رہتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنی بھیانک خرابیوں اور غلطیوں سے ہونے والے نقصانات کی پرواہ ہی نہیں کررہے ہیں۔ ملک کے عوام کو ہرگذرتے دن کے ساتھ مہنگائی کا اژدھا کھڑا کرنے والے یہ لوگ معاشی انحطاط کو نظرانداز کرتے ہوئے خود اپنے رائے دہندوں کی معیشت پر کاری ضرب لگارہے ہیں۔ فی الحال یہ مودی کے بھکت نما رائے دہندے جوش و جذبات میں اپنی روٹی روزی کو لاحق خطرات سے بے خبر ہیں، سانحہ سی اے اے سے وہ بھی متاثر ہونے والے ہیں لیکن فی الحال ان کی آنکھوں پر زعفرانی پٹی لگادی گئی ہے اس لئے ہر طرف انہیں زعفرانی رنگ نظر آرہا ہے۔ شاہین باغ کے احتجاج کو گینز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا جائے یا نہیں اس پر یہاں بحث نہیں ہے لیکن اس احتجاج کو نظرانداز کرکے حکومت نے جو ہٹ دھرم رویہ اختیار کرلیا ہے وہ دستور ہند کیلئے تباہ کن ہے۔ ایسے میں بی جے پی کے قائدین کو منہ زوری، زبان درازی کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے تو یہ خود بی جے پی اور اس کے بھکتوں کے لئے نقصان دہ ہے کیونکہ ہندوستانی عوام کی اکثریت بیدار ہوچکی ہے ۔ بی جے پی قائدین کے ناپاک ذہنوں میں سوائے عصمت ریزی، قتل و غارت گری، لوٹ مار اور ظلم و زیادتیوں کے کوئی اور بات نہیں آتی کیونکہ بی جے پی کے 70 فیصد قائدین اور ارکان پارلیمنٹ کا پس منظر مجرمانہ ہے۔ بی جے پی کے کئی ارکان پارلیمنٹ قتل و عصمت ریزی، اغواء، ڈکیتی اور دیگر سنگین جرائم میں مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ لوک سبھا انتخابات کو مجرمانہ پس منظر رکھنے والوں سے پاک بنانے کی الیکشن کمیشن نے کوشش کی مگر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ تمام سیاسی پارٹیوں سے کہا گیا کہ وہ مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والوں کو پارٹی ٹکٹ نہ دیں‘ لیکن بی جے پی نے ایسا نہیں کیا۔ ایسے کئی قائدین کو ٹکٹ دیا جن کا پس منظر مجرمانہ ہے۔ اس مسئلہ سے نمٹنے کیلئے سپریم کورٹ نے کئی سلسلہ وار تاریخی فیصلے کئے ہیں مگر کوئی پارٹی ان فیصلوں کا احترام نہیں کرتی۔ حکمراں بی جے پی کے پاس تو درجنوں مجرمانہ ریکارڈ کے حامل ارکان کی تعداد زیادہ ہے۔ سپریم کورٹ نے مجرمانہ ذہنیت کے حامل ارکان پارلیمنٹ کو نااہل قرار دے کر ایوان سے باہر کرنے کی بھی سفارش کی تھی لیکن اب تک اس رولنگ پر کارروائی نہیں کی گئی۔ بی جے پی ٹیم خطرناک مجرموں پر مشتمل ہے تو ملک کے دیگر شہریوں خاص کر ٹکٹ کے خواہاں افراد کو نظرانداز کردیا جارہا ہے۔ نیم حکیم خطرہ جان، نیم مُلا خطرہ ایمان جس طرح کہا جاتا ہے اسی طرح نیم سیاستداں خطرہ وطن ، سالمیت ، سلامتی و امان ہوتا ہے۔ بی جے پی کے قائدین کی یہ مجرمانہ رفتار ملک کے اندر ایک خطرناک سوچ کو بڑھاوا دے رہی ہے اس پر روک لگانا بہت ضروری ہے۔ بی جے پی حکومت اپنے مقاصد کیلئے دستور میں ترمیم کررہی ہے لیکن قانون نمائندگان 1951 ء میں ترمیم کرتے ہوئے مجرموں کو ٹکٹ دے کر امیدوار بنانے سے گریز کرنے کا فیصلہ نہیں کررہی ہے، اگر بی جے پی نے ایسا کیا تو خود اس کے کئی وزراء اور ارکان پارلیمنٹ نااہل قرار دیئے جائیں گے ۔ لہذا شاہین باغ کو لیکر بی جے پی کے قائدین نفرت کی جو پھونکیں ماررہے ہیں اس سے شاہین باغ کا چراغ نہیں بجھے گا۔