شاہ سلمان ۔ جوبائیڈن بات چیت

   


صدر امریکہ جوبائیڈن نے سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان سے فون پر بات چیت کرتے ہوئے امریکہ۔ سعودی تعلقات اور دونوں ملکوں کے درمیان طویل شراکت داری پر تبادلہ خیال کرکے اپنے دورصدارت کے آغاز کے بعد عالمی سطح پر ایک نیا رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ امریکہ اور سعودی عرب کو باہمی تعلقات کو مضبوط ار شفاف بنانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے دیکھا جارہا ہے۔ مشرق وسطیٰ خاص کر ایران کے حوالے سے سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات کی سطح ایک الگ تصویر پیش کرتی ہے۔ صدر امریکہ جوبائیڈن نے حلف لینے کے بعد سلسلہ وار طور پر عالمی قائدین سے رابطہ قائم کیا ہے۔ حال ہی میں انہوں نے مشرق وسطیٰ کے قائدین سے تعارفی فون کالز کا سلسلہ شروع کیا۔ شاہ سلمان سے فون پر بات چیت سب سے زیادہ اہم تھی۔ سابق صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کے سعودی عرب کے قائدین کے ساتھ گرمجوشانہ تعلقات کے بعد اب جوبائیڈن بھی اسی خطوط پر سعودی کے ساتھ تعلقات کا جائزہ لے رہے ہیں تو ان کی یہ بات چیت ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب صحافی جمال خشوگی کی ہلاکت کے انٹلیجنس جائزے اور رپورٹ کو شائع کیا جارہا ہے۔ یہ انٹلیجنس رپورٹ منظرعام پر آتی ہے تو اس سے صدر امریکہ جوبائیڈن مشکل میں پڑ سکتے ہیں۔ سعودی عرب کے شہری صحافی جمال خشوگی کے قتل کے واقعہ نے مشرق وسطیٰ میں ہلچل پیدا کردی تھی۔ اس قتل کے پیچھے پوشیدہ راز کو منکشف کردینے کے بعد سوال یہ پیدا ہوگا کہ آیا سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان موجودہ گرمجوشانہ تعلقات کیا رخ لیں گے کیونکہ انٹلیجنس رپورٹ کے حوالے سے یہ کہا جارہا ہیکہ رپورٹ میں کہا جاسکتا ہیکہ جمال خشوگی کا قتل سعودی فرمانروا شاہ سلمان کے فرزند محمد بن سلمان کے حکم پر کیا گیا۔ اگر یہ رپورٹ قتل کے پیچھے پوشیدہ حقائق کو اجاگر کردے گی تو پھر وائیٹ ہاؤز کا کیا ردعمل ہوگا یہ غور طلب ہے۔ وائیٹ ہاؤز کے ذمہ داران پوری احتیاط سے کام لینے کی کوشش کریں گے کیونکہ سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کے تعلقات میں کوئی تنازعہ نہ پیدا وہ اس کا پورا خیال رکھا جاسکتا ہے۔ اس وقت سعودی عرب بھی یمن ۔۔۔۔۔ ، ایران اور دیگر مسائل کے حوالے سے امریکہ کے ساتھ موجودہ تعلقات ۔۔۔۔۔۔ تلخیاں پیدا کرنا نہیں چاہے گا۔ جیسا کہ صدر امریکہ بائیڈن نے شاہ سلمان سے بات چیت میں سعودی عرب کی سلامتی کا دفاع کرنے امریکی عزم کا اعادہ کیا ہے۔ یمن میں جنگ کے پرامن خاتمے کیلئے زور دیا جارہا ہے لیکن اس پر حتمی قدم اٹھانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر تبادلہ خیال کرنے والے ان دونوں قائدین نے فلسطین پر ہونے والی زیادتیوں کی جانب توجہ نہیں دی۔ سعودی عرب کو عالم عرب میں ایک اہم مقام حاصل ہے اس لئے دنیا کے تمام ممالک سعودی عرب سے بہتر سے بہتر تعلقات کے متمنی رہتے ہیں۔ صدر امریکہ جوبائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سمجھا یہ جارہا تھا کہ جوبائیڈن اپنے وار میں سعودی عرب کو خاطر میں نہیں لائیں گے اور سعودی۔ امریکہ تعلقات منفی رخ لیں گے لیکن جوبائیڈن نے جس طریقہ سے سعودی فرمانروا سے بات چیت کی اس سے واضح ہوتا ہیکہ باہمی تعلقات میں کشیدگی پیدا ہونے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ امریکہ کو ان تمام ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے رکھنے کی کوشش کرتے دیکھا جارہا ہے جہاں اس کے مفادات ہوئے ہیں۔ چین کے ساتھ امریکہ کی تجارتی مسابقت اور معاشی طاقت، ہتھیاروں کی دوڑ جاری رہے گی۔ وہ دیگر ممالک کو عزیز رکھے گا۔ آنے والے دنوں میں امریکہ کے صدر کی خارجہ پالیسی کیا رخ اختیار کرتی ہے یہ دیکھا جائے گا۔ بائیڈن انتظامیہ نے اب تک جو فیصلے کئے ہیں یا احکامات جاری کئے ہیں اس کی بنیاد پر فوری کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں تک امریکہ کی سعودی عرب کے تعلق سے پالیسی کا سوال ہے یہ بھی غور طلب ہے کیونکہ جوبائیڈن نے حال ہی میں ایران کے حمایت والے یمن کے حوثیوں کے حملوں سے سعودی عرب کو تحفظ فراہم کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ جوبائیڈن کی یہ پالیسی سابق صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے سعودی عرب کی حمایت میں کئے گئے اقدامات کے مقابل بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔
ہند ۔ پاک جنگ بندی سے اتفاق
ہندوستان اور پاکستان نے خط قبضہ پر جنگ بندی کے تمام معاہدوں پر عمل آوری سے اتفاق کیا ہے جس کا ساری دنیا نے خیرمقدم کیا۔ خاص کر یوروپی یونین اور امریکہ نے برصغیر میں امن و سلامتی کیلئے دونوں ملکوں ہندوستان اور پاکستان کو باہمی مذاکرات شروع کرنے کا بھی مشورہ دیا۔ یہ بات شدت سے نوٹ کی جاتی رہی ہیکہ خود پڑوسی ملکوں کے درمیان اختلافات اور کشیدگی خطہ کے امن و سکون کیلئے مناسب نہیں ہے۔ ہر دو جانب کے عوام کو ایک پرامن کشیدگی سے پاک ماحول میں ترقی دینے کا اختیار ہے لیکن افسوس اس بات کا ہیکہ سرحدی مسئلہ پر دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کی خلاف ورزیاں ہونے کی شکایات پائی جاتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف چوکسی اختیار کرنا ضروری ہے اس کے ساتھ باہمی اعتماد اور اتفاق کو قائم کیا جائے تو اس سے دہشت گردی سے نمٹنے میں کامیابی ملے گی۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سرحد پر 2003ء سے جنگ بندی معاہدے موجود ہیں لیکن ہندوستان کا الزام ہیکہ پاکستان کی طرف سے وقتاً فوقتاً جنگ بندی کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں۔ گذشتہ 3 سال کے دوران ہی سرحد پر حملہ 10,752 جنگ بندی کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں۔ دونوں جانب سے فائرنگ تبادلوں سے فوجی اور انسانی جانوں کا نقصان ہوتا ہے۔ ہندوستان کا نکتہ نظر یہ ہیکہ پاکستان کی سرزمین سے دہشت گرد کارروائیوں کی سازش تیار کی جاتی ہے۔ مخالف ہند دہشت گرد گروپوں کو پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دی جاتی ہے جبکہ پاکستان نے ہندوستان کے اس خیال کو ایک سے زائد مرتبہ مسترد کردیا ہے۔ اب دونوں فریقوں نے جنگ بندی کے معاہدوں پر قائم رہنے سے اتفاق کیا ہے تو باہمی مذاکرات کیلئے بھی جلد سے جلد پیشرفت ہونی چاہئے۔