ابوزہیرسیدزبیرھاشمی نظامی، معلم جامعہ نظامیہ
آج کی شب انتہائی عظمت ،فضیلت ، برکت، رحمت ،سعادت والی شب ہے ۔ اِس شب میں ہم جتنی عبادت وریاضت کریں گے یقینا اس کا فائدہ بے حد وبے حساب ملے گا۔ کیونکہ شبِ قدر میں اﷲتعالی نے اپنے حبیب پاک علیہ الصلوۃ والسلام پر قرآن مجید کو نازل فرمایاہے ۔اور اس کے متعلق خالق کائنات نے سورئہ قدر کی شکل میں مکمل ایک سورت کو نازل فرمایا ہے ۔ اور فرمایا گیا کہ قدر کی رات ہزار مہینوں کی راتو ں سے بہتر اور افضل ہے ۔ اگر ہزار مہینوں کا حساب کیا جائے گا تو تقریباً تراسی (۸۳) سال چار ماہ ہونگے ۔تو پتہ چلاکہ اگر کوئی شخص ایک شب قدرمیں مکمل خشوع و خضوع کے ساتھ عبادت کرے گا تو اﷲسبحانہ وتعالی اس کو تراسی (۸۳)سال چار ماہ کی عبادت کا ثواب عطا فرمائے گا۔
شبِ قدر کی فضیلت یہ ہے کہ ملائکہ کا اس شب میں نزول ہوتا ہے اور شام سے صبح تک سلامتی اور تجلیات الٰہی کا بھی نزول ہوتا ہے، اس رات کی عبادت میں جو کیف و سرور اور حلاوت رکھی گئی ہے وہ کسی اور رات کو حاصل نہیں ہے، جو بھی شخص اس رات کو جاگنے اور عبادت کرنے میں گزارتاہے اس کے پاس فرشتے آتے ہیں اور مصافحہ و معانقہ کرتے ہیں جب یہ بندئہ خدا، خدا کی جناب میں دست سوال دراز کرتااور دعائیں مانگتا ہے تو اس وقت یہ فرشتے آمین کہتے ہیں، اس رات کو قبولیت دعا کا عظیم شرف حاصل ہے، کیونکہ خدا کے حکم سے فرشتے آمین کہنے پر مامور ہیں، بھلا جس دعا پر فرشتے آمین کہنے پر مامور ہوں وہ کیوں کر مسترد ہوسکتی ہے۔
فضیلتِ شب ِ قدر: شبِ قدر کے کئی فضائل بیان کئے گئے ہیں جن میں سے پہلی فضیلت یہ ہے کہ اس ایک رات میں اعمال خیر کرنے والوں کو ایک ہزار ماہ سے زیادہ عبادت کرنے کا ثواب عطا کیا جاتا ہے۔ دوسری فضیلت یہ ہے کہ ملائکہ کا اس شبِ قدر میں نزول ہوتا ہے اور شام سے صبح تک سلامتی اور تجلیات الٰہی کا بھی نزول ہوتا ہے، اس رات کی عبادت میں جو کیف و سرور اور حلاوت رکھی گئی ہے وہ کسی اور رات کو حاصل نہیں ہے، جو بھی شخص اس رات کو جاگنے اور عبادت کرنے میں گزارتاہے اس کے پاس فرشتے آتے ہیں اور مصافحہ و معانقہ کرتے ہیں جب یہ بندئہ خدا، خدا کی جناب میں دست سوال دراز کرتااور دعائیں مانگتا ہے تو اس وقت یہ فرشتے آمین کہتے ہیں، اس رات کو قبولیت دعا کا عظیم شرف حاصل ہے، کیونکہ خدا کے حکم سے فرشتے آمین کہنے پر مامور ہیں، بھلا جس دعا پر فرشتے آمین کہنے پر مامور ہوں وہ کیوں کر مسترد ہوسکتی ہے۔
تلاشِ شب قدر : شبِ قدر کو اﷲتعالی نے ماہ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں پوشیدہ رکھا ہے ۔ یعنی اکیس، تیئیس، پچیس، ستائیس اور انتیس (جن میں سے صرف دو طاق راتیں باقی رہ گئی ہیں) یہ پانچ طاق راتیں ایسی ہیں جس میں شبِ قدر ہے ۔اب ہم بندگانِ خدا پر یہ ذمہ داری ہے کہ ان طاق راتوں میں خلوص نیت کے ساتھ اس اہمیت والی شب کو تلاش کریں تو یقینا اس سے بڑا فائدہ ہوگا۔
علاماتِ شب قدر: شبِ قدر کی علامات میں سے یہ بتلایا گیا ہے کہ اس شب میں نہ گرمی ہوگی اور نہ سردی بلکہ موسم معتدل ہوگا ۔اب رہا بعض حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ شب قدر میں کتوں کے بھوکنے کی آواز بھی نہیںآتی ہے ۔اور سورج بغیر کرنوں کے طلوع ہوگا۔اور یہ علامتیں جو ابھی بتلائی گئی ہیں وہ ہرکس وناکس کو محسوس نہیں ہونگی بلکہ ان لوگوں کومحسوس ہوگی جو اﷲسبحانہ وتعالی کی خلوص نیت کے ساتھ عبادت وریاضت کرے گا۔
نکتہء شب قدر: شب ِ قدر کانکتہ یہ بیان کیاگیاہے جیساکہ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ سے کہا میں نے طاق عددوں پر تو سات سے زیادہ کسی طاق عدد کولائق اعتماد نہیں پایا ۔ پھر جب سا ت کے عدد پر غور کیا جائے تو آسمان بھی سات۔
٭ زمین بھی سات۔
٭ دریا بھی سات۔
٭ صفا ومروہ کے درمیان سعی بھی سات۔
٭ خانہ کعبہ کا طواف بھی سات۔
٭ رمئی جمار بھی سات۔
٭ رات بھی سات
٭ انسان کی تخلیق بھی سات اعضاء سے۔
٭ انسانی چہرہ میں سات سوراخ۔
٭ قرآن پاک میں سات منزلیں۔
٭ سورئہ فاتحہ میں سات اٰیتیں۔
٭ سجدہ بھی سات اعضاء سے ہوتاہے۔
٭ جہنم کے سات دروازے۔
٭ اصحاب کہف سات تھے۔
٭ حضرت ایوب علیہ السلام اپنی آزمائش میں سات سال مبتلا رہے۔
٭ حضرت ام المؤمنین سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا کہ میں سات سال کی تھی کہ رسول خدا علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھ سے نکاح فرمایا۔
٭ قوم عاد سات دن کی لگاتار آندھی سے ہلاک ہوئی ،حضرت موسیٰ علیہ السلام کا طو ل اس زمانے کے سات گز کے برابر تھا اور آپ کے عصا کا طول بھی سات گز تھا ۔جب یہ ثابت ہوگیا کہ اکثر چیزیں سات ہیں تو اﷲتعالی نے ’’سلام ھی حتی مطلع الفجر‘‘ فرماکر بندوں کو آگاہ کردیا کہ شبِ قدر ستائیسویں شب ہے (اس میں سات کا ہندسہ بھی شامل ہے) اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ شب قدر ستائیس تاریخ کو ہوتی ہے۔ ہم تمام مسلمانوں پر یہ ذمہ داری ہے کہ بقیہ طاق راتوں میں شب ِ قدر کوتلاش کرنے کی کوشش کریں تاکہ ہماری دنیوی اور اخروی زندگی کامیاب ہوجائے اور ہمارے دِلوں میں خوف خدا اور محبت ِ رسولﷺ پیدا ہوجائے ۔
[email protected]