شب قدر اُمت محمدیہ کا طرۂ امتیاز

   

حامد لطیف ملتانی قادری
ام المؤمنین حضرت بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا، حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل فرماتی ہیں کہ ’’شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو‘‘۔ حضرت ابوذر ؄ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ’’کیا شب قدر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے ساتھ رہتی ہے یا بعد میں بھی ہوتی ہے؟‘‘۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’قیامت تک رہے گی‘‘۔ میں نے عرض کیا ’’یہ تو بتلا دیجئے کہ عشرہ کے کونسے حصے میں ہوتی ہے؟‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مہینہ کی آخری طاق راتوں میں تلاش کرو، بس اس کے بعد کچھ نہ پوچھو‘‘۔
قرآن حکیم میں آیا ہے کہ بے شک ہم نے قرآن پاک کو شب قدر میں اتارا ہے، یعنی قرآن شریف کو لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر اس رات میں اتارا ہے۔ یہی ایک بات اس رات کی فصیلت کے لئے کافی تھی کہ قرآن پاک جیسی عظمت والی کتاب اس میں نازل ہوئی، چہ جائیکہ اس میں اور بہت سی برکات اور فضائل شامل ہو گئے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے کہ شب قدر میں حضرت جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کے ایک گروہ کے ساتھ اترتے ہیں اور جس شخص کو ذکر و عبادت میں مشغول دیکھتے ہیں، اس کے لئے رحمت کی دعاء کرتے ہیں۔ اپنے پروردگار کے حکم سے ہر امر خیر کو لے کر زمین پر اترتے ہیں۔

قدر کے معنی عظمت و شرف کے ہیں، اسی لئے اس رات کو لیلۃ القدر کہتے ہیں۔ حضرت ابوبکر وراق رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اس رات کو شب قدر اس وجہ سے کہتے ہیں کہ جس آدمی کی اس سے پہلے اپنی بے عملی کے سبب کوئی قدر و قیمت نہیں تھی، اس رات میں توبہ و استغفار اور عبادات کے ذریعہ وہ بھی صاحب قدر و شرف بن جاتا ہے۔ قرآن شریف میں شب قدر کو ہزار مہینوں سے افضل بتلایا گیا ہے، جو بہت برکت اور خیر کی رات ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کو اس رات کی عبادت نصیب ہوجائے۔ اس ایک رات کو عبادت میں گزار دے تو گویا اس نے تراسی سال چار ماہ سے زیادہ کی مدت عبادت میں گزار دیا۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مبارک نقل کیا گیا ہے کہ ’’شب قدر اللہ تعالی نے میری امت کو مرحمت فرمائی ہے، جو پچھلی امتوں کو نہیں ملی‘‘۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے عبادت کے لئے کھڑا ہو، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ جو چیز جتنی قیمتی اور اہم ہوتی ہے، اتنی ہی زیادہ محنت سے حاصل ہوتی ہے، تو شب قدر جیسی قیمتی دولت بھلا بغیر محنت کے کس طرح حاصل ہو سکتی ہے، اسی لئے اس کی تاریخ کا تعین نہیں ہو سکا۔ تاریخ اور دن کا پتہ نہ دینے ہی میں ہماری بھلائی ہے (ابن کثیر) مطلب یہ ہوا کہ اگر دن تاریخ معلوم ہو جاتی تو اس کی اتنی قدر نہ ہوتی اور معلوم ہوتے ہوئے بھی اگر کوئی شخص اس کی ناقدری کرتا تو سخت بدنصیبی اور محرومی کی بات تھی۔ مفسر قرآن علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اس کو پوشیدہ رکھنے میں حکمت یہی ہے کہ اس میں طالب، طلب و شوق سے پورے رمضان میں عبادتوں کا اہتمام کریں گے۔
شب قدر کے بارے میں قطعی خبر اس لئے نہیں دی گئی کہ کوئی شخص اس رات پر ہی بھروسہ نہ کرلے اور ایسا نہ کہہ سکے کہ میں نے اس رات میں جو عمل کرلیا ہے، وہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی نے مجھ کو بخش دیا، مجھے درجہ عطا ہوا، میں جنت میں جاؤں گا، اس طرح کے خیالات اسے سست اور کاہل نہ بنادیں اور وہ اللہ تعالی کی عبادت سے غافل نہ ہو جائے۔ کیونکہ ایسا کرنے سے دنیاوی امیدیں اس پر غلبہ پالیں گی اور وہ اسے ہلاک کردیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو عمر کے بارے میں بھی بے خبر رکھا ہے۔
حضور اکرم ﷺنے فرمایا کہ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پوشیدہ رکھا گیا ہے۔ لوگوں کی عبادت پر اللہ تعالیٰ نے اپنی رضامندی ظاہر کرنے کو، گناہ پر اپنا غضب اور غصہ ظاہر کرنے کو، وسطی نماز کو دوسری نمازوں سے، اپنی دولت کو عام لوگوں کی نظروں سے اور رمضان کے مہینہ میں شب قدر کو۔ (غنیۃ الطالبین)