مفتی اختر ضیاء قادری شرفی
جس مبارک مہینہ میں رحمت کی جھڑی لگتی ہے، اسی مبارک مہینہ کی راتوں میں سے ایک رات شب قدر کہلاتی ہے، جو بہت ہی برکت اور خیر کی رات ہے۔ اس مبارک مہینہ کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے خلاصی کا ہے۔ ان مبارک گھڑیوں میں ہم کیوں نہ اپنے پروردگار سے لو لگائیں، اس کی رحمت کی بارش میں نہائیں اور خود کو تمام گناہوں سے پاک و صاف کرلیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں ایک ایسے شخص کا تذکرہ کیا گیا، جس نے ہزار ماہ تک خدا کی راہ میں جہاد کیا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اظہار تعجب فرمایا اور اپنی امت کے لئے ایسی نیکی کی تمنا فرمائی اور عرض کیا ’’اے پروردگار! تو نے میری امت کو سب امتوں سے کم عمر والا بنایا اور اعمال میں سب امتوں سے کم کیا ہے‘‘۔ تب اللہ تعالی نے آپ کو لیلۃ القدر عطا فرمائی، جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔
ہزار مہینے کے تراسی برس چار ماہ ہوتے ہیں۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کو اس رات کی عبادت نصیب ہو جائے۔ جو شخص اس رات کو عبادت میں گزارے تو اس نے گویا تراسی برس چار ماہ سے زیادہ عرصہ عبادت میں گزارا۔ بے شک یہ اللہ تعالی کا بہت بڑا انعام ہے، جس نے قدر دانوں کو ایک نہایت عظیم نعمت مرحمت فرمائی۔ درمنثور میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت نقل کی گئی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’شب قدر حق تعالی نے میری امت کو مرحمت فرمائی ہے، جو پہلی امتوں کو نہیں ملی‘‘۔
شرح مشکوۃ میں لکھا ہے کہ شب قدر ہی میں ملائکہ کی پیدائش ہوئی۔ اسی شب میں حضرت آدم علیہ السلام کا مادہ جمع ہونا شروع ہوا۔ اسی رات میں جنت میں درخت لگائے گئے اور دعاء وغیرہ کا مقبول ہونا بھی بکثرت روایات میں وارد ہے۔ ایک حدیث پاک میں ہے کہ اسی رات میں حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر اٹھائے گئے اور اسی رات میں بنی اسرائیل کی توبہ قبول ہوئی۔ وہ رات سراپا سلامتی کی ہے اور یہ کیفیت تمام رات طلوع فجر تک رہتی ہے۔ یہ نہیں کہ کسی خاص حصہ میں برکت ہو اور کسی حصہ میں نہ ہو، بلکہ صبح ہونے تک ان برکات کا ظہور ہوتا ہے۔
شب قدر ایسی عظیم اور خاص رات ہے، جس میں عبادت اور کار خیر کا ثواب ہزار مہینوں کی عبادت کے ثواب سے بھی زیادہ ہے۔ اس مبارک شب میں اللہ تعالی کی خاص تجلی ہوتی ہے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام ملائکہ کے ہمراہ زمین پر اترتے ہیں۔ ہر بات کے متعلق اللہ تعالی کا حکم لاتے ہیں اور بے حساب خیر و برکت کے خزانے بندوں کے لئے عام کرتے ہیں۔ اس نورانی فضاء سے اہل ایمان کے ایمان تازہ ہوتے ہیں۔ ایسے وقت میں عبادت اور ذکر الہی کرنے والوں پر انوار خداوندی کی موسلا دھار بارش ہوتی ہے اور ان کے دلوں کو لذت و سرور حاصل ہوتا ہے۔ اس رات کا ہر لمحہ مبارک و مقدس اور نزول رحمت سے معمور ہوتا ہے۔ اس مبارک رات میں پوری روئے زمین توجہات الہیہ کا مرکز بنی رہتی ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ شب قدر میں حضرت جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کی جماعت کے ساتھ زمین پر تشریف لاتے ہیں اور جس بندے کو کھڑے یا بیٹھے ذکر اللہ میں مشغول دیکھتے ہیں تو اس کے لئے دعائے رحمت و مغفرت کرتے ہیں۔ ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو شخص ایمان و احتساب کے ساتھ شب قدر میں نفل نمازیں پڑھے گا، اس کے سابقہ گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ لیکن شب قدر کی تاریخ اللہ تعالی نے متعین نہیں کی اور لوگوں کے جذبات، شوق طلب اور جستجو پر چھوڑ دیا، تاکہ نفس کا مجاہدہ ہو سکے اور انسانوں میں حقیقی تڑپ پیدا ہو جائے۔ مہینہ بتا دیا گیا اور یہ بھی بتا دیا گیا کہ اس مہینہ کے آخری عشرہ میں ہے، البتہ تاریخ کو مخفی رکھا گیا ہے، تاکہ نیکیوں کے متمنی اور اللہ و رسول کی الفت کا دم بھرنے والے اس مبارک شب (شب قدر) کی تلاش میں شب بیداری کرتے رہیں۔