شمائل محمدی ﷺ

   

ڈاکٹر قمر حسین انصاری

نبی کریم ایسے خوبصورت اور خوب سیرت تھے جو بیان سے باہر ہے ۔ سورۃ البقرہ میں ارشادِ باری تعالی ہےکہ : ’’لہذا اُن کے لئے سخت قسم کا عذاب ہے جو رسول اللہ کے اوصاف اور آپؐ کی صفات کو اپنی کتاب میں بدل دیتے ہیں ‘‘۔ اس آیت شریفہ کے متعلق نسائیؒ نے حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے روایت کیا ہےکہ یہ آیت یہودی علماء کے بارے میں نازل ہوئی ۔ جنہوں نے تو رات کے اندر رسول اللہ کی جو صفت لکھی ہوئی پائی تھی کہ آپؐ سُرمگیں آنکھوں والے ، درمیانہ قد والے اور خوبصورت چہرے والے ہوں گے۔ آپؐ کے بال نہ بالکل سیدھے ہوں گے اور نہ بالکل ٹیڑھے ۔ یہودیوں نے حسد اور بغض اور عداوت میں اس صفت کو مٹا کر یہ لکھ دیا کہ آپ بڑے قد، نیلی آنکھوں والے اور سیدھے بالوں والے ہوں گے ۔
(لباب النقول في اسباب النزول از علامہ سیوطیؒ)
حضور کے جمال و کمال کا یہ اثر تھا کہ دل آپؐ کی تعظیم اور قدر و منزلت کے جذبات سے خود بخود لبریز ہو جاتے تھے۔ چنانچہ آپؐ کی حفاظت اور ا جلال و تکریم میں صحابہ کرام نے ایسی جان نثاری کا ثبوت دیا۔ جس کی نظیر تاریخ انسانیت میں نہیں ملتی ، عالم انسانی اپنی تکمیل کےلئے ہمیشہ ایسے جامع کامل کا محتاج رہا جو جمالِ خَلقْ اور کمالِ خُلقْ سے مُتصف ہو اور یہ جامع ہستی صاحبِ قرآن جناب محمد مصطفی ﷺ کی ہی ہے۔ جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنے دین حق کی تکمیل کی ’’اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ‘‘ (سورۃ المائده ) 
روز اول کی زینت محمدؐ سے ہے
شام آخر کی رنگت محمدؐ سے ہے (بیکل اُتساہی)
حضرت براء ؓکہتے ہیں۔’’ آپ کا چہرہ سب سے زیادہ خوبصورت تھا اور آپؐ کے اخلاق سب سے بہتر تھے ‘‘۔(صحیح مسلم ) حضرت انس بن مالکؓ کا ارشاد ہے’’ آپؐ کی ہتھیلیاں کشادہ تھیں اور رنگ چمکدار ۔ اِس دُنیا سے پردہ فرمانے کے وقت سر اور چہرے کے بیس بال بھی سفید نہ ہوئے تھے ‘‘ (صحیح بخاری)
حضرت اُمِ معبد خزایہؓ نے آپؐ کے حلیہ مبارک کا نقشہ یوں کھینچا : چمکتا رنگ ، تابناک چہرہ ، سرمگیں آنکھیں، پُر جمال سب سے خوبصورت اور شیریں ، گفتگو میں چاشنی ایسی کہ گویا لڑی سے موتی جھڑ رہے ہوں، مطاع و مکرم، بات واضح اور دو ٹوک ۔(زاد المعاد)
حضرت انسؓ فرماتے ہیں : ’’میں نے کبھی کوئی عنبر یا مشک یا کوئی ایسی خوشبو سونگھی جو رسول اللہ کی خوشبو سے بہتر ہو ‘‘۔ (صحیح بخاری اور صحیح مسلم ) آپؐ سب سے زیادہ حیا دار اور پست نگاہ تھے۔ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ آپؐ پردہ نشین کنواری عورت سے بھی زیادہ حیادار تھے (صحیح بخاری ) اور آپؐ کو جب کوئی بات ناگوار گذرتی تو چہرہ سے پتہ چل جاتا ۔ (صحیح بخاری ) بی بی عائشہؓ محبت کی ایک یاد کو تازہ کرتے ہوئے فرماتی ہیں ’’گویا مجھے حضور کی مانگ میں خوشبو کی چمک نظر آ رہی ہے ( صحیح بخاری)
حضرت خارجہ بن زیدؓ کا بیان ہیکه نبیؐ اپنی مجلس میں سب سے زیادہ باوقار ہوتے ۔ (ایضاً) آپؐ کی ہنسی زیادہ تر تبسم کی صورت میں تھی۔ آپؐ مسکراتے تو دانت موتیوں کی طرح چمکتے۔ (خلاصہ اسیر) 
مختصر یہ کہ آپؐ بے نظیر صفاتِ کمال اور جمال سے آراستہ تھے۔
بقول شیخ مصلح الدین سعدیؒ ؎
بَلَغَ الْعُلیٰ بِکَمَالِہٖ
کَشَفَ الدُّجیٰ بِجَمَالِہٖ
حَسُنَتْ جَمِیْعُ خِصَالِہٖ
صَلُّوا عَلَیْہِ وَ آلِہٖ
عالم وجود کے سب سے عظیم ہستی کی عظمت اور کمال کا یہ عالم تھا کہ اُن کی عظمت کی انتہا تک کس کی رسائی ممکن ہو سکتی ہے جس نے مجددِ کمال کی سب سے بُلندی پر اپنا نشیمن بنایا اور اپنے رب کے نور سے اس طرح منور ہوا کہ کتاب الٰہی ہی کو اُس کا وصف اور خُلق قرار دیا گیا۔ یعنی’’ قاری نظر آتا ہے. حقیقت میں ہے قرآن‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے ہم کو اُمت محمد یؐ میں پیدا کر کے ہم پر جو احسان عظیم کیا ہے۔ آئیں ہم اُس کا شکر آپؐ سے محبت ادب و احترام کرتے ہوئے آپؐ کی تعلیمات پر دل و جان سے ایمان لا کر عمل کریں ؎
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں (علامہ اقبالؔ)