!شوگر کے مریضوں کا پیر کاٹنا اب قصہ پارینہ

   

حیدرآباد۔ذیابیطس کے مریضوں میں مرض کے بڑھنے کے بعد ان کا پیر کاٹ دیا جاتا ہے اور جب پیر کاٹ دیا جاتاہے تو اس کے بعد مریض چند برسوں میں مرجاتا ہے لیکن اب نئے تجربات نے اس مسئلہ کا حل نکالا ہے۔ اپولو ہاسپٹلس نے جوبلی ہلز، اپنے احاطے میں ذیابیطس کے مریضوں کے لیے ایک منفرد ملٹی ڈسپلنری سنٹر آف ایکسیلنس فار ڈائیبیٹک فٹ مینجمنٹ (CoEDFM) کا آغاز کیا۔ کنگز کالج ہسپتال لندن کے تعاون سے اپولو ہسپتال ذیابیطس کے مریضوں کے لیے ہندوستان میں پہلی بار ڈائیبیٹک فوٹ ری کنسٹرکشن اینڈ مینجمنٹ کا نیا طریقہ کار متعارف کیا ہے۔ یہ نیا طریقہ کار لندن کے کنگز کالج ہسپتال کے عالمی شہرت یافتہ آرتھوپیڈک سرجن اور کنسلٹنٹ ڈاکٹر وینو کاوارتھاپو نے تیار کیا ہے۔ مسئلہ کی جامع علاج فراہم کرنے کے لیے CoEDFM کے حصے کے طور پر ماہرین کی ایک ٹیم تشکیل دی ہے، جس میں پوڈیاٹرک سرجنز، ویسکولر سرجنز، آرتھوپیڈک سرجنز، متعدی امراض کے ماہرین، فزیکل تھراپسٹ اور آرتھوٹسٹ شامل ہیں۔ پیر، ٹخنوں اور دیگر حصیکو فعال بنانے کے لیے ٹیم طبی اصلاح، شریانوں کے پرفیوڑن اور انفیکشن کے خاتمے کے لیے باہمی تعاون سے کام کرے گی۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر وینو کاورتھاپو نے کہا کہ ذیابیطس کے مریضوں میں اعصاب، ورید اور ہڈیوں کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے پیرمڑجاتا ہے یا بگڑجاتا ہے، جب تک ہم پیرکی اس خرابی کو درست نہیں کرتے، مریض چل نہیں سکتا۔ اچھی طرح چلنا ذیابیطس کے مریضوں کا سنگین مسائل ہیں اگر وہ پیرکو متحرک نہیں رہ سکتے ہیں تو ان میں بڑے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں، دل کمزور ہو جاتا ہے، گردے کے مسائل، دماغ میں دوران خون متاثر ہوتا ہے جس کے نتیجے میں فالج اور متعدد مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ یہ واقعی اہم ہے کہ ہم ان کی نقل و حرکت کو برقرار رکھیں، ان کا پیرکاٹنا مثالی علاج نہیں ہے۔ ذیابیطس کے شکار افراد اگر اپنا پیرکھو دیتے ہیں تو تین دہائیوں سے زائد عرصے سے اتنے سائنسی شواہد موجود ہیں کہ وہ اپنی زندگی کوجلد ختم کرلیتے ہیں، تقریباً 60 سے 70 فیصد افراد 5 سال میں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اس مسئلے کے حل کیلئے زیادہ قابل اعتماد جراحی کی تکنیک کو آزمانے اور تیارکرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔