شہادتِ بابری مسجد بیسوی صدی کا بھیانک سانحہ

   

(عدالت کے فیصلے مثل کی روئیداد پر کئے جاتے ہیں نہ کہ حقائق پر)۔
انسان کی آخرت کا فیصلہ اس کی کتاب حیات کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ جہاں کسی کی سفارش کام نہ آئے گی۔ یہ دنیا دار العمل ہے، جو بوؤگے وہی کاٹوگے۔
بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہندوتوا کے جارحانہ اندازاور مظالم سے خود اس ملک کی ہندو برادری جو سیکولر ذہن رکھتی ہے کہ دل دہل اٹھے۔ میڈیا نے بھی اس المناک واقعہ کو ملک کا عظیم سانحہ قرار دیا۔
پیغام ربانی : اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ کی مسجد وں میں اس کے نام کی یاد سے روکے اور ان کو ویران کرنے کی کوشش کرے۔ ان کیلئے تو دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں عذابِ عظیم۔
مسلمانانِ ہند کو تقسیم ہند 1947ء کے بعد جس بڑے سانحہ سے گذرنا پڑا وہ سانحہ شہید بابری مسجد کا ہے، جس کی شہادت تخریب پسند ہندؤں کے ہاتھوں 6 ڈسمبر 1992ء کو ہوئی۔
سانحہ بابری مسجد مشاہیر کی نظر میں
قوم کا سر شرم سے جھک جانا چاہئے:
ایودھیا میں جو کچھ ہوا اس پر پوری قوم کا سرشرم سے جھک جانا چاہئے۔ بابری مسجد پر حملہ اور اس کو مسمار کرکے کار سیوکوں نے جو اقدام کیا ہے وہ ہندوستان کی فراخدلانہ روایت اور ہندو مذہب کی رواداری کی روح پر ایک بدنما داغ ہے۔
…از: ایچ کے دوا (معروف صحافی و مشیر وزیراعظم)
بابری مسجد کی شہادت پر صدر جمہوریہ ڈاکٹر شنکر دیال شرما کا بیان :
(صدر شنکر دیال شرما نے اس ہلڑ بازی پر اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس قسم کے فعل ہندو دھرم اور دیگر تمام عظیم مذاہب کے اصول کے خلاف ہیں۔ ڈاکٹر شرما نے کہا کہ وہ لوگ جنہوں نے مسجد کی عمارت کو نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے ہندوستان کی صدیوں پرانی روایت کو داغدار کیا ہے جسے تحریک آزادی کے عظیم رہنماؤں نے سینچا تھا۔)
’’اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ بابری مسجد میں تو 1947ء سے نماز نہیں ہورہی تھی اور وہاں مورتیاں رکھی ہوئی تھیں تو انہیں یہ جان لینا چاہئے کہ اگر وہ مندر تھا تو مندر ہی کو توڑنا کہاں کا انصاف ہے؟ یہ کیاکم گناہ ہے؟ غرض یہ کہ جس اعتبار سے بھی دیکھا جائے یہ واقعہ غنڈہ گردی کی مثال تھا۔‘‘
…از: آر۔ کے۔ کرنجیا (مدیر بلٹز، ممبئی، معروف صحافی)
اپوزیشن پارٹیوں کا ردعمل :
w ملک کا لیڈر ہوتے ہوئے بھی واجپائی بہت مجبور ہیں آخر ان کو کون مجبور کرتا ہے؟ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ بی جے پی، آر ایس ایس، وی ایچ پی کے ہی لیڈر نہیں ہیں بلکہ پورے ملک کے لیڈر ہیں۔ …از: ملائم سنگھ یادو (سماجوادی پارٹی)
l وزیراعظم بار بار اپنا بیان بدلتے ہیں، انہوں نے مسئلہ ایودھیا پر نو دس بار اپنا بیان بدلا ہے۔ میرے پاس اس کا ریکارڈ ہے، واجپائی کے ہر بیان کے بعد یہ سوچنا پڑتا ہے کہ وہ اپنے اس بیان پر کتنے دن قائم رہیں گے۔
…از: پریہ رنجن داس منشی (کانگریس)
l ہم نے کسی وزیراعظم کو کسی کی چتا کے پاس کھڑا ہوا نہیں دیکھا جو اتنا خطرناک بیان دے۔ وزیراعظم کا بیان بہت خطرناک ہے، وزیراعظم کا یہ کہنا ہے کہ پرم ہنس کی آخری خواہش ضرور پوری ہوگی اور اس کے بعد یہ کہنا کہ کوئی طاقت مندر نرمان کو نہیں روک سکتی۔ یہ دونوں بیان پوشیدہ سیاسی اور انتخابی مفادات کو سامنے رکھ کر دیئے گئے ہیں۔ آخری رسومات کے موقع پر تعزیتی نشست کا انعقاد اور اس طرح کے بیان کا مقصد فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے سواء کچھ نہیں۔ وزیراعظم کو اس بیان پر افسوس ظاہر کرنا چاہئے۔
…از: سومناتھ چٹرجی (مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی)
l وزیراعظم نے ایودھیا میں جو کچھ کہا ہے وہ تعجب خیز نہیں ہے۔ وہ جو بات دل سے کہتے ہیں ٹھیک کہتے ہیں مگر جب بی جے پی کی بھیڑ دیکھتے ہیں تو بدل جاتے ہیں۔ جب وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی فسادات کے دوران گجرات گئے تھے تو نریندر مودی کے بارے میں درست بیان دیا تھا مگر جب گوا گئے تو بدل گئے۔ اگر ان میں ہمت ہے تو مندر کی تعمیر کے لئے قانون لے کر آئیں۔ …از: رام ولاس پاسوان (لوک جن شکتی پارٹی)،صفحہ نمبر119
(بشکریہ : راشٹریہ سہارا، اُردو)
مندر ہونے کا کوئی ثبوت نہیں
از : ڈاکٹر آر سی ٹھاکرن (آرکیالوجسٹ)
محکمہ آثار قدیمہ کو کھدائی کے دوران دسویں صدی کی ایسی کوئی چیز نہیں ملی ہے جس سے یہ ثابت کیا جاسکے کہ وہاں اس دور کا کوئی مندر تھا۔ محکمے کے لوگ مندر کے ثبوت کے طور پر جس دیوار کو پیش کررہے ہیں وہ مسجد کا ہی ایک حصہ ہے۔ دیوار کا پلاسٹر اور فرش کا پلاسٹر ایک جیساہے۔
…صفحہ نمبر178
اے ایس آئی نے کھدائی کے کام میں جدید ترین تکنیک کا استعمال نہیں کیا ہے۔ کھدائی میں ملی ہڈیوں اور دوسری چیزوں کو اے ایس آئی درج نہیں کررہی تھی۔ عدالت کے کہنے کے بعد جہاں تہاں من مانے انداز سے انہوں نے ریکارڈ کرنا شروع کیا۔ رپورٹ پیش کرنے سے پہلے جو چیزیں ملی تھیں، ان پر اچھی طرح غور ہونا چاہئے تھا۔ پائی گئی مختلف سطحوں میں فرق کو اجاگر نہیں کیا گیا ہے۔ چمک دار برتنوں کی موجودگی درج نہیں کی گی ہے۔ مختصر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اے ایس آئی نے نہ تو تکنیک کا استعمال کیا، نہ ہی رپورٹ کے سلسلے میں غور و خوض کیا۔ سروے کا کام ٹھیک سے نہیں ہوا۔ جب سروے کی ٹیم ہی اس میں فریق ہوتو سروے کی جانبداری کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اے ایس آئی نے مخصوص سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لئے من گھڑت دعویٰ پیش کیا ہے، اس کے دلائل کی کوئی تاریخی بنیاد نہیں ہے۔
… صفحہ نمبر179
’’23؍دسمبر 1949ء کی صبح کو جس کی شب میں بابری مسجد میں رام چندر جی کی مورتی رکھی گئی تھی قریب 9بجے مجھے ضلع مجسٹریٹ نے بتایا کہ انہیں شری بھائی لال کے ذریعہ صبح 6؍بجے معلوم ہوا کہ مسجد میں مورتی رکھ دی گئی ہے میں اسے دیکھنے گیا تھا، وہاں سے ابھی لوٹا ہوں۔ یہ بات سوچنے کے قابل ہے کہ مسجد میں جہاں پولیس پہرا تھا ان پہرے داروں میں کسی کو خبر نہ ہوسکی اور بھائی لال کو اتنے سویرے اطلاع مل گئی اور یہ کہ ضلع مجسٹریٹ کو اس بات کی جانچ کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ شری بھائی لال کو اتنے سویرے یہ خبر کیسے ملی۔‘‘ … شری اکشے برہمچاری
… صفحہ نمبر436
بابر کی وصیت … صفحہ نمبر437
بابر کے متعلق یہ بھی گمان نہیں کیا جاسکتا کہ اس نے یہاں آتے ہی مندروں اور مورتیوں کو مسمار کرنا شروع کردیا، کیونکہ جس سال یہ مسجد بنی ہے اسی سال اس نے ہمایوں کے لئے یہ وصیت نامہ لکھ کر چھوڑ رکھا تھا :
’’اے فرزند! ہندوستان کی سلطنت مختلف مذاہب سے بھری ہوئی ہے، خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہم کو اس کی بادشاہی عطا کی ، تم پر لازم ہے کہ اپنے لوح دل سے تمام مذہبی تعصبات کو مٹا دو، اور ہر مذہب کے طریقہ کے مطابق انصاف کرو، تم خاص کر گائے کی قربانی کو چھوڑ دو، اس سے تم ہندوستان کے لوگوں کے دلوں کو تسخیر کرسکوگے، پھر اس ملک کی رعایا شاہی احسانات سے دبی رہے گی، جو قوم حکومت کے قوانین کی اطاعت کرتی ہے، اس کے مندروں اور عبادتگاہوں کو منہدم نہ کرو، عدل و انصاف اس طرح کرو بادشاہ رعایا اور رعایا بادشاہ سے خوش رہے، اسلام کی ترویج ظلم کی تلوار سے زیادہ احسانات کی تلوار سے ہوسکتی ہے، شیعوں اور سنیوں کے اختلاف کو نظر انداز کرتے رہو، ورنہ اسلام میں ان سے کمزوری پیدا ہوتی رہے گی، مختلف عقائد رکھنے والی رعایا کو اس طرح ان عناصر اربعہ کے مطابق ملاؤ، جس طرح انسانی جسم ملا رہتا ہے، تاکہ سلطنت کا ڈھانچہ اختلافات سے پاک رہے۔‘‘
یکم جمادی الاولیٰ 935ھ (انڈیا ڈیوائڈڈ، صفحہ 39، تیسرا ایڈیشن)
… صفحہ نمبر438
شری رام دوبے سب انسپکٹر پولیس اسٹیشن ایودھیا نے 23؍دسمبر 1949ء کو درج دیل ایف آئی آر رجسٹرڈ کروائی۔
ماتا پرساد (پیپر نمبر 7) کے مطابق ’’میں جب تقریباً نو بجے صبح جنم بھومی کے پاس پہنچا تو مجھے پتہ چلا کہ 50-60 افراد بابری مسجد کے صدر دروازے کے تالے کو توڑ کر یا دیوار پھلانگ کر اور سیڑھی لگا کر مسجد کے احاطے میں کودے اور شری بھگوان کی مورتیاں مسجد میں رکھ دیں۔ مسجد کی اندرونی و بیرونی دیواروں پر گیروے رنگ سے سیتا رام کے الفاظ لکھ دیئے۔ ڈیوٹی پر موجود ہنسراج نے انہیں منع کیا لیکن وہ باز نہیں آئے۔ یہ لوگ پی اے سی کے دستوں کو بلائے جانے سے قبل ہی مسجد میں داخل ہوچکے تھے۔ اس درمیان ضلعی انتظامیہ کے افسران جائے وقوع پر پہنچ گئے اور ضروری انتظامات میں مصروف ہوگئے، اس کے بعد پانچ چھ ہزار افراد کی ایک بھیڑ وہاں جمع ہوگئی جو مسلسل بھجن گا رہی اور نعرے لگا رہی تھی۔ انہوں نے مسجد میں داخل ہونے کی کوشش کی لیکن انہیں روک دیا گیا۔ مناسب انتظامات کی بنیاد پر کوئی اور حادثہ پیش نہیں آیا۔ رام داس، رام شکل داس، اور 50-60 نامعلوم افراد مسجد میں چپکے سے داخل ہوئے تھے اور انہوں نے مسجد کی حرمت کو پامال کیا۔ جائے وقوع پر موجود ڈیوٹی افسران اور کئی دوسرے اس واقعے کے عینی شاہد ہیں۔ چنانچہ یہ رپورٹ لکھی گئی اور اسے فائنل کیا گیا۔
دستخط اسٹیشن ماسٹر … صفحہ نمبر438
(یہ اس ایف آئی آر کا ترجمہ ہے جو 23؍دسمبر 1949ء کو رجسٹرڈ کی گئی تھی، جسے 11؍فروری 1986ء میں باضابطہ ریکارڈ کرلیا گیا)
نوٹ : مذکورہ مضمون ’’بابری مسجد ، شہادت کے بعد(حصہ دوم)‘‘ سے لیا گیا ہے۔٭