مولوی محمد عا بد حسین نظامی
آپ کا اسم مبارک سیدناعمرؓ، آپ کا لقب فاروقؓ، آپ کی کنیت ابوحفص والد ماجد کا نام خطّاب، والدہ ماجدہ کا نام حنتمہ۔ آپؓ حضور ﷺ کی پیدائش کے ۱۳سال بعد تولد ہو ئے ۲۶ یا ۲۷سال کی عمر شریف میں داخل اسلام ہو ئے،اسلام قبول کرنے سے پہلے سفارت کے عہدے پر فا ئز تھے،مکہ مکرمہ میں گویا قریش کے یہ سفیر تھے،زمانہ جا ہلیت میں ہی پڑھنا لکھنا جا نتے تھے ، بہت طاقتوراور مضبوط تھے،جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تو آپؓ نے عبرانی زبان بھی سیکھی اور بعض بعض موقعوں پر حضور سرور دوعالم ﷺ کو مشورے دیتے ،(کیونکہ حضور ﷺ بھی صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اور ازواج مطہرات سے مشورے فرماتے ) آپؓ کے اسلام لا نے سے اسلام کو تقویت مل گئی۔
اعلان ہجرت: حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے ہجرت کے وقت اعلان کیا کہ جس کی ماں اُس پر نوحہ کرے تو ایسے لوگ آکر مجھے ہجرت سے روکے،بلکہ آپؓاپنے ساتھ ۲۰ افراد کو لے کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے۔ہجرت کے بعد تمام جنگوں میں شامل رہے۔غزوہ تبوک میں آدھا مال عطیہ دیئے۔
اخلاق وکردار: سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلامی تعلیمات کے مجسم نمونہ تھے،بالخصوص زہد وتقویٰ،حفظ لسان،حق پرستی، راست گو ئی،تواضع وسادگی میں آپ کی نظیر نہیں تھی ،آنحضرت ﷺ کی اطاعت وپیروی کی اور اُسی طرح حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کی بھی پیروی کی اور ابوبکرصدیق ؓکے ادب کو بھی ضروری سمجھتے تھے۔
تعظیم منبر رسول ﷺ: جب آپ ؓ خطبہ دینے کے لئے منبر رسول پر چڑھے تو پہلی مرتبہ ہی نبی مکرم ﷺ اور صدیق اکبرؓ کے ادب واحترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے ساری دنیا کو بلکہ قیا مت تک کے ہرآنے والے خطیب کو یہ بتلادیا کہ نبی مکرمﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علھیم اجمعین کی تعظیم کرنا ضروری ہے،یعنی نبی محمد رسول اللہ ﷺ خطبہ دینے کے لئے منبر کی تیسری سیڑھی پر کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرماتے تھے،جب حضرت ابو بکر صدیق ؓکو مصلیٰ نبی پر نبی نے فائز فرمایا تب جمعہ کے مو قعہ پر صدیق اکبر ؓ نے منبر رسول ﷺ پر چڑھے تو آپؓ نے دوسری سیڑھی پر کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا اور جب بیٹھے تو منبر کی تیسری سیڑھی پر بیٹھے اور اُمت محمدیہ ﷺ کو یہ بتلایا نبی پاک ﷺ کی تعظیم ایمان کی شرط اول ہے۔
عدل وانصاف: حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کا عدل فاروقی بہت مشہور ہے اور عدل وانصاف کے لئے آپؓ کے نزدیک کو ئی فرق نہیں یعنی مسلمان ہے یا یہودی سب کے لئے برابر باعتبار شریت مصطفی ﷺ فیصلہ فرماتے ۔
محبت رسول ﷺ: آنحضرت ﷺ سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کو اِس درجہ محبت تھی کہ آپ ﷺ کی خاطر اپنی جان اپنی اولاد سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار رہتے(کمر بستہ ہوتے)ایک دن حضور اکرم ﷺ اپنی ازواج مطہرات سے ناراض تھے تو حضرت عمر فاروقؓ نے سو نچا کہ کہیں میری بیٹی حفصہ کی وجہ سے حضورﷺ جلال میں تو نہیں ہیں اِس خیال سے حضرت عمر ؓ نے نبی پاک ﷺ سے کہا کہ ائے نبی پاک ﷺ اگر آپ کا حکم ہو تو میں اپنی بیٹی حفصہؓ کی گردن اُڑادوں۔
شھادت : حضرت عمر فاروق ؓ روزانہ کی طرح حسب معمول وقت سے پہلے ۲۶ذو الحجۃ الحرام ۲۳ھ کی صبح صادق نماز فجر کیلئے مسجد پہو نچے آپ سے پہلے مجوسی ابو لؤلو فیروز نامی دشمن اسلام آکر محراب میں بیٹھ گیا،جیسے فاروق اعظم ؓمصلیٰ پر نماز کیلئے کھڑے ہوتے ہیں وہ دشمن آپؓ پراپنی زہر آلود تلوار سے قاتلانہ حملہ کیا اُس وقت تو بیہوش ہوئے،جب گھر لائے گئے تو چاردن تک آپؓ بقید وحیات رہے باالآخروہ عدل وانصاف کا پیکر شمشیر بے نیام یکم محرم۲۴ ھ کے دن اِس دنیاء فانی کو خیرآباد کہتے ہوئے جام شہادت نوش فرمائے ۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ o