اللہ وحدہٗ لاشریک نے جو یہ کائنات تخلیق فرمائی ہے، اس کا انحصار محبت پر ہے۔ اگر محبت کے عنصر کو اس میں سے نکال دیا جائے تو یہ کائنات بے آب و رنگ ہوکر رہ جائیگی اور اس میں سوائے تاریکی کے اور کچھ باقی نہیں رہے گا۔ ارشاد باری تعالی ہے کہ ’’(اے حبیب!) لوگوں سے کہہ دو، اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میری (اللہ کے حبیب ﷺکی) اتباع کرو‘‘۔اتباع محبت پر موقوف ہوتی ہے، محبت کے بغیر اتباع اور اتباع کے بغیر محبت ناممکن ہے۔ نواسہ رسول حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے نانا جان رحمت عالم ﷺ سے بے پناہ محبت فرماتے تھے۔ آپؓ نے اپنے نانا جان کی تعلیمات پر مکمل عمل کیا اور ان کی اتباع میں اپنی تمام زندگی صرف کردی اور اپنے لہو سے اپنے نانا جان کے دین متین کی آبیاری کرگئے، جس کے لئے انہیں بہتر (۷۲) نفوس کی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا اور خود بھی جام شہادت نوش فرماکر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ جاوید ہوگئے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’اللہ کی راہ میں قربان ہوکر شہید ہونے والوں کو مردہ مت کہو، وہ زندہ ہیں اور تم ان کی زندگیوں کا شعور نہیں رکھتے‘‘۔ لغوی اعتبار سے شہادت گواہی دینے اور اللہ کی راہ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کا نام ہے۔ حضرت سیدنا امام حسین ؓنے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے شہادت پائی۔ شہید فنا ہوکر بقاء حاصل کرتا ہے۔ شہید کو اللہ کی طرف سے سب سے بڑا انعام یہ ملتا ہے کہ بن دیکھے جس ہستی پر وہ اپنی جان نثار کرتا ہے، مرنے سے قبل اس کو اس کے دیدار سے مشرف کردیا جاتا ہے۔میدان کربلا میں نواسۂ رسول ؓنے اسلام کی حقانیت اور دین کی بقاء کے لئے بہتر (۷۲) نفوس کو قربان کردیا، مگر دین محمدی کے روشن چراغ کو بجھنے نہیں دیا۔آپؓ نے اپنا خون دے کر نسل انسانی کو فنا اور بقاء اور فلسفہ شہادت کے رموز عملاً سمجھا دیا۔ آپ نے حضور اکرم ﷺکے اس قول پر عمل کرتے ہوئے اپنی جان نثار کردی کہ ’’اللہ کی نا فرمانی میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں‘‘۔
حافظ محمد افتخارالدین قادری سبحانی
حضرت پیر سید محمد عبدالرحمن بغدادیؒ
حضرت پیر سید محمد عبد الرحمن قادری الرفاعی المعروف بڑے بغدادی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت ۱۰؍ شوال المکرم ۱۲۸۲ھ کو بغداد شریف میں ہوئی۔ جب آپ کا سن مبارک چار سال کا ہوا تو والد بزرگوار نے اہل برادری اور معززین شہر کو مدعو کرکے آپ کی تعلیم کا آغاز فرمایا۔ آپ کے خالو ملا عارف الدین نے آپ کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری لی، جو اپنے زمانے کے ممتاز شیوخ میں سے تھے۔ سب سے پہلے قرآن مجید کی تعلیم دی، یعنی نو سال کی عمر میں آپ حافظ قرآن ہو گئے اور بعد ازاں تفسیر، حدیث، فقہ، علم کلام کی تعلیم شروع ہوئی، اس طرح ۱۷سال کی عمر میں دستار فضیلت باندھی گئی۔
تحصیل علم کے بعد حضرت بڑے بغدادی صاحب کے زہد و تقویٰ، تقدس اور حسن اخلاق کی مقبولیت عام ہوئی۔ جب آپ کی دکن تشریف آوری ہوئی تو آل عثمانی اپنے تخت و سلطنت کو آپ کی دعاؤں کا صلہ سمجھتے اور حصول دعا کے لئے آپ کی بارگاہ میں حاضری دیتے۔ ہر شاہی تقریب کا افتتاح حضرت قبلہ کے کلام سے ہوتا اور پھر حضرت ہی کی دعا پر اختتام کے آرزومند رہتے۔ آصف جاہ میر محبوب علی خاں کی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ حضرت قبلہ جب کبھی شاہی محل کی جانب رخ فرماتے تو آپ کے استقبال کے لئے جو فرش بچھایا جاتا، اس فرش کو واپسی کے بعد اُٹھوا دیا جاتا، تاکہ اس پر دوسروں کے قدم نہ پڑنے پائیں۔
حضرت بڑے بغدادی صاحب آل نبی اور وارث علم علی تھے۔ خلق محمدیﷺ کا پیکر اور کمال انسانیت کا مجسم نمونہ اور جاں نثار رسول تھے۔ عشق محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال تھا کہ آپ کی محفل میں جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم مبارک لیا جاتا تو آپ پر رقت طاری ہو جاتی اور تمام جسم پر رعشہ پیدا ہو جاتا۔ حضرت قبلہ جامع کمالات تھے، یعنی عالم بھی تھے اور صوفی بھی۔ ہر ہر قدم پر سنت کی پابندیاں کرتے اور دوسری طرف تصوف کے منازل بھی طے فرماتے۔ ۱۰؍ محرم الحرام ۱۳۴۴ھ بعمر ۶۳سال آپ نے وصال فرمایا، آپ کے منجھلے بھائی حضرت پیر سید محمد بغدادی نے نماز جنازہ پڑھائی اور خطۂ صالحین نامپلی میں تدفین عمل میں آئی۔ ہر سال ۱۰ تا ۱۲؍ محرم الحرام آپ کا عرس شریف منایا جاتا ہے۔