شہریت قانون ملک کیلئے خطرناک بن گیا ہے…!

   

غضنفر علی خاں
آج کل ملک میں عام شہری جو احتجاج کررہے ہیں، اس کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اب اس احتجاج کی وجہ سے مودی حکومت دہل گئی ہے۔ حکومت میں شامل لیڈرس ان ہنستے عوام کو ڈرا دھمکا رہے ہیں کہ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو احتجاجیوں کو زندہ دفن کردیا جائے گا گویا یہ بات کافی نہیں تھی تو ایک اور بی جے پی لیڈر نے کہا کہ ’’ہم احتجاج کرنے والوں کو کتوں کی موت ماریں گے‘‘۔ احتجاج کون کررہا ہے، ساری قوم مجسم احتجاج بن گئی ہے۔ پارٹی کے ایک اہم رکن پارلیمان ورما نے کہا کہ اگر دہلی کے جنتر منتر اور شاہین باغ میں احتجاجی اسی طرح سے لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوتے رہیں تو یہ لوگ احتجاج نہ کرنے والوں کے گھروں میں گھس جائیں گے۔ ورما نے کہا کہ اس طرح سے گھروں میں داخل ہونے والے احتجاجی گھروں میں ہندو ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور بہوؤں کی عزت و آبرو کو لوٹ لیں گے۔ گویا ایک انارکی یعنی نراج کی کیفیت پیدا ہوجائے گی۔ ان کا یہ کہنا بھی تھا کہ ایسے وقت جبکہ حالات بے قابو ہوجائیں گے، انہیں امیت شاہ یا نریندر مودی بھی بچا نہ سکیں گے تو کیا احتجاج ان سب کے اعصاب پر ایک قہر بن کر نازل ہوگیا ہے کیونکہ بی جے پی کے لیڈرس یہ سمجھتے ہیں کہ ایک مرحلہ ایسا ضرور آئے گا جس میں وزیر داخلہ اور وزیراعظم بھی بے بس ہوجائیں گے۔ عقل و دانش، فہم و فراست، معاملہ فہمی بھی اولین تقاضہ یہ ہے کہ احتجاج کی اس آگ کو دہکنے نہ دیا جائے اور احتجاجیوں کا یہ مطالبہ مان لیا جائے کہ اس کالے قانون کو نافذ کرنے سے پہلے ہی واپس لے لیا جائے۔ یہ باتیں صرف کہنے و سننے کی ہیں جبکہ ان پر فوری عمل کیا جانا چاہئے۔ مودی اور امیت شاہ کو کوئی اندازہ نہیں کہ آج کے حالات ایمرجنسی کے پہلے کے حالات سے مماثلت رکھتے ہیں۔ اس وقت بھی اندرا جی کی حکومت اسی طرح سے من مانی کررہی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ساری اپوزیشن جماعتیں متحد ہوکر ایک انقلاب لائیں گے۔ اور ملک میں پہلی مرتبہ غیرکانگریسی حکومت بنے گی، اسی وقت کسی دانشور نے کہا تھا کہ دہلی کی سڑکوں پر پڑے ہوئے پتھر خود چیخ چیخ کر یہ کہیں گے کہ ’’آؤ دیکھو، یہاں ایک کانگریسی چھپا ہوا ہے، یہی حالت آج ملک کی ہے ، ہر شخص ملک کی ہر خاتون و بیٹی، ہر بہو، حد یہ ہے کہ قوم کی بزرگ خواتین (دادی و نانی) شاہین باغ میں جمع ہوکر ہر روز کسی نہ کسی قسم کا احتجاج بلند کررہی ہیں۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہے گی تو آج کے دور کی سڑک کا ہر پتھر بھی یہی آواز دے گا کہ میرے پیچھے بی جے پی کا لیڈر کھڑا ہے۔ یہ خیال کہ مٹھی بھر گمراہ کن عناصر یہ منظم احتجاج کررہے ہیں۔ کہتے ہیں ہر دن ایک نئے مقام پر ایک نئے شہر میں ہزاروں و لاکھوں کی تعداد میں مرد و خواتین، لڑکیاں اور نوجوان جمع ہورہے ہیں۔ اگر اس احتجاج نے بی جے پی کے لیڈرس کے اعصاب پر اثر نہیں کیا ہے تو پھر کیوں بارہا یہ کہا جارہا ہے کہ ہم احتجاج کرنے والے تمام افراد کو زندہ دفن کردیں گے۔ کسی جمہوری نظام میں اس احتجاج کے خلاف ایسی بدکلامی کی جاسکتی ہے۔ اگر کتوں کی موت مارنے کی نوبت آئی تو ملک میں یقینا خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہوجائے گی۔ آج بھی ساری اپوزیشن جماعتیں معدودے چند کے علاوہ اس بات پر متفق ہیں کہ احتجاج جاری رکھا جائے گا۔ یعنی عوام شاہین باغ، جنترمنتر اور مختلف مقامات پر سَر پر کفن باندھے ہوئے مظاہرہ کررہے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہندوستان جیسا عظیم الشان ملک ’’دو رائے والا ملک‘‘ نہ بن جائے۔ ایک وہ جو بی جے پی کی تائید کرتے ہیں اور دوسرا وہ جو مودی حکومت کے فیصلے کے خلاف احتجاج بلند کررہے ہیں۔ ملک میں دو طبقات جنم لیں گے۔ ایک وہ جو ملک کو ایک قوم واحد کی طرح متحد رکھنا چاہتے ہیں اور دوسرا وہ انتشار پسند گروپ جس کی قیادت بی جے پی کررہی ہے۔ ملک میں یوں ہی افراتفری، خانہ جنگی اور مذہبی تعصب کا علمبردار ہوگا۔ دونوں باتیں انتہائی نقصان دہ ہیں۔ ملک کی وحدت کا شیرازہ بکھر کر رہ جائے گا اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان سکڑ کر رہ جائے گا۔ اتنے اندیشوں کے باوجود کیوں امیت شاہ اور نریندر مودی بضد ہیں کہ شہریت کے قانون کو بہرصورت نافذ کیا جائے، کیا ان کے پیش نظر یہ خطرات، یہ خدشات نہیں ہیں۔ اگر نہیں ہیں تو ان دونوں کی قیادت ہر قسم کی بالیدگی اور بصیرت سے یکلخت عاری ہے جو حکومتیں کسی عوامی احتجاج کو طاقت کے ذریعہ کچلنا چاہتی ہیں، وہ خود مٹ جاتی ہیں، ایسا ہر دور میں ہوا کرتا ہے۔ ابھی ہمارے درمیان وہ لوگ موجود ہیں جنہوں نے روس میں اس کے بابائے قوم لینن کے شاندار مجسمہ کو ٹھوکریں مار مار کر گرادیا تھا اور اس طرح سے صدر سویت یونین کئی سنٹرل ایشیا کے ممالک میں بٹ گئی۔ آج کئی سابقہ سویت یونین کا نام نہیں ہے۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ کبھی ہمارے پڑوسی ملک ایران میں شاہ پہلوی کی جاگیرانہ حکومت تھی لیکن مذہبی رہنما مولانا آیت اللہ خمینی کی قیادت نے اس شاہی حکومت کی دھجیاں اُڑا دی اور رضا شاہ پہلوی کو تخت و تاج اور حکومت چھوڑ کر اپنے محلات کے ساتھ فرانس میں پناہ لینی پڑی۔ اقتدار عوام کے دَم سے ہے، ایسے کئی واقعات ہیں جن کا حال ہی میں مشاہدہ ہوا ہے۔ یوگوسلاویہ کے جابر حکمران میولو سوچ نے قتل و غارت گری کا بازار گرم کر رکھا تھا لیکن عوامی انقلاب کے بعد میولوسوچ کو انسانوں کے قتل عام کا مجرم قرار دے کر انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے سزائے موت دی تھی۔ یہ سب کچھ عوام نے کیا، اس کے لئے کسی لیڈر کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ عوام طاقت کا سرچشمہ ہوتے ہیں۔ ملک کے ساتھ سرکشی ، اپنا سر کٹانے کے مماثل ہوتا ہے، عوامی حکومتوں میں ہر وقت عوام ہی صحیح ہوتے ہیں، ان پر حکومت کرنے والا شخص یا طبقہ کسی گنتی کے شمار میں نہیں کیا جاتا۔ ہندوستان کے حالات بڑی تیزی کے ساتھ بدلتے جارہے ہیں، کسی ایک یا دو لیڈرس کے غیض و غضب سے عوام ڈرنے والے نہیں ہیں۔ انہیں اس حد تک مجبور نہیں کیا جانا چاہئے کہ وہ تشدد کا راستہ اختیار کریں۔ ابھی تک بھی جو ملک کے چاروں طرف ہوا ہے، وہ انتہائی پرامن ہے۔ عام لوگ موسم کی شدت کو برداشت کرتے ہوئے ٹھٹھر ٹھٹھر کر آسامان کے نیچے میدانوں میں سرد راتیں گذار رہے ہیں، کیونکہ ان کے اندر کا یہ جذبہ کہ وہ صحیح نہیں ہے، ان کو حدت و حرارت فراہم کررہا ہے۔ یہ حدت گولیوں کی گرمی سے ختم نہیں کی جاسکتی۔ اگر عوام کو بی جے پی کے نادان لیڈرس اسی طرح سے لڑاتے و دھمکاتے رہیں تو ان کے جذبات اور بھی مشتعل ہوجائیں گے اور وہ خدانخواستہ کسی اور راستہ پر نکل پڑیں گے۔ یہ تحریک بالکلیہ خود پر عوامی تحریک ہے۔ اس کا نہ تو کوئی لیڈر ہے اور نہ کوئی منزل صرف ایک بات سب کچھ پیش نظر ہے کہ سیاہ قانون ہٹایا جائے، کسی حکومت کیلئے اپنے ہی بنائے ہوئے قانون کو عوامی جذبات کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑتے ہیں۔ ایک معمولی بات ہے کیونکہ اتنی سی بات مودی حکومت کو سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ قانون عوام کی سہولت کیلئے بنایا جاتا ہے اور جب عوام ہی اس کی شدت سے مخالفت کرنے لگے تو اس کو واپس لیا جانا چاہئے۔ یہ کہنا کہ ہم طاقت کے بل بوتے پر قانون کو نافذ کریںگے۔ایک ایسی غلط فہمی ہے جس کی بڑی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ طاقت کا حکومت نے ابھی تک تو استعمال نہیں کیا ہے، لیکن عوام کے غیض و غضب کو دیکھتے ہوئے حکومت طاقت کے استعمال کو شاید کبھی بھی استعمال کرے جس کی جھلکیاں دکھائی دینے لگی ہیں۔ یوپی کے مظفر نگر میں ایک معصوم بچے کو سلاخوں سے داغا گیا اور پولیس اس سے بار بار یہ پوچھتی رہی کہ ’’بتا کیا تیرا اللہ تجھے بچانے آئے گا؟‘‘ اسے دہکتی ہوئی آگ میں پھینکنے کی کوشش کی گئی، لیکن جسے اللہ رکھے اسے کون مار سکتا ہے۔ اور ایسے چیدہ چیدہ واقعات رونما ہورہے ہیں جس سے امکان پیدا ہوگیا ہے کہ کسی وقت بڑی واردات بھی ہوجائے۔ اللہ معاف کرے۔ ایسے حالات ملک میں پیدا نہ ہوں اور ملک اپنی موجودہ مشکل میں برقرار ہے۔