سپریم کورٹ کا اکثریتی فیصلہ ۔ آسام کے لاکھوں افراد کو راحت ۔ 1971 کی کٹ آف ڈیٹ قانونی طور پر درست
نئی دہلی :سپریم کورٹ نے اپنے ایک تاریخی فیصلے میںسٹیزن شپ ایکٹ 1955 کی دفعہ 6A کو آئینی قرار دیا ہے ۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 ججوں کی بنچ نے کثرت رائے سے یہ فیصلہ سنایا اور آسام کیلئے کٹ آف ڈیٹ 1971 کو قانونی طور پر درست قرار دیا ۔اس فیصلے سے آسام کے لاکھوں لوگوں کو راحت ملے گی جن پر کئی دہوں سے شہریت کی تلوار لٹکی ہوئی تھی جمعیۃ علما ء ہند کی درخواست پر فیصلہ میں سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ ایکٹ آسام معاہدہ کے مطابق ہے جس کی رو سے جو شخص بھی 25مارچ 1971 سے پہلے آسام میں مقیم تھا، وہ اور اس کی اولاد ہندوستانی شہری شمار کی جائے گی۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرا چوڑ، جسٹس سوریہ کانت، جسٹس سندریش اور جسٹس منوج مشرا نے 6A کی آئینی حیثیت کے حق میں فیصلہ دیا۔ چیف جسٹس چندر اچوڑ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آسام معاہدہ غیر قانونی پناہ گزینوں کے مسئلے کا سیاسی حل تھا اور اس میں دفعہ 6A قانون کے عین مطابق ہے ۔ انھوں نے کہا کہ مرکزی حکومت اس قانون کو دوسرے علاقوں میں بھی لاگو کر سکتی تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا کیوں کہ یہ آسام کے لئے خاص ہے ۔عدالت نے مانا کہ 6A کے تحت 25 مارچ 1971 کی کٹ آف ڈیٹ بھی درست ہے کیوں کہ آزادی کے بعد ہندوستان کے دوسرے علاقوں کے مقابلے مشرقی پاکستان سے آسام میں ہجرت زیادہ ہوئی۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرا چوڑ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ معاہدہ آسام غیرقانونی نقل مقامی کا ایک سیاسی حل تھا اور دفعہ 6A اس کا قانونی حل تھا ۔ ججس کی اکثریت نے اس رائے کا اظہار کیا کہ پارلیمنٹ قانون سازی کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے تاکہ اس طرح کے دفعہ بنایا جاسکے ۔ ججس کی اکثریت نے اس رائے کا اظہار کیا کہ دفعہ 6A مقامی آبادی کی حفاظت کرنے کی ضرورت کے مطابق انسانی تشویش کا توازن برقرار رکھنے بنایا گیا تھا ۔ اکثریتی رائے تھی کہ آسام دوسری ریاستوں سے اس لئے مختلف ہے کیونکہ اس کی بنگلہ دیش کے ساتھ ایک وسیع سرحد ملتی ہے اور وہاں مقامی آبادی میں تارکین وطن کا تناسب دوسری ریاستوں کی بہ نسبت زیادہ ہے ۔ عدالت کا کہنا تھا کہ آسام میں 40 لاکھ تارکین وطن کا اثر مغربی بنگال میں 57 لاکھ تارکین وطن سے زیادہ ہے کیونکہ آسام کا زمینی علاقہ مغربی بنگال سے بہت کم ہے ۔جمعیۃ علماء ہند اور اس کی ریاستی یونٹ جمعیۃ علماء آسام، صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی کی قیادت میں پچھلے پندرہ سالوں سے سپریم کورٹ میں مقدمہ لڑرہی ہے ، کئی نامور وکیلوں نے آسام کے لاکھوں مظلوم انسانوں کی طرف سے سپریم کورٹ میں پیروی کی ۔ جمعیۃعلماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی ، ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند مولانا حکیم الدین قاسمی، قانونی معاملات کے نگراں ایڈوکیٹ نیاز احمد فاروقی سکریٹری جمعیۃ علماء ہند، آسام کے صدر مولانا بدرالدین اجمل قاسمی ، ناظم اعلیٰ حافظ بشیر احمد قاسمی ، سکریٹری مولانا فضل الکریم ، مولانا محبوب حسن اور مولانا عبدالقادر سمیت کئی اہم ذمہ داروں نے اس فیصلے کا استقبال کیا ہے ۔مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ نفرت اورتعصب کی سیاست کے اس دورمیں جہاں ایک طرف اس طرح کے مسائل کھڑے کرکے مذہبی شدت پسندی اورمنافرت کی آگ لگانے والے لوگ موجودہیں،آئینی بینچ کایہ فیصلہ بتاتاہے کہ آگ پر پانی ڈالنے والے لوگ آج بھی موجودہیں۔ مولانا مدنی نے یہ بھی کہاکہ موجودہ آسام حکومت کھل کر مسلم مخالف ایجنڈے پر عمل پیرا ہے ، اس کی پوری کوشش تھی کہ دفعہ 6Aکسی طرح منسوخ ہوجائے ۔