شہر جغرافیائی اعتبار سے محفوظ ، دفاعی تنصیبات و فوجی مراکز پہلے سے موجود

,

   

حیدرآباد کا مستقبل
s

برطانوی سامراج میں تین دارالحکومت تھے ، اب دو کیوں نہیں ہوسکتے ؟ جنوب کو مرکزسے جوڑا جاسکتا ہے

حیدرآباد20اگسٹ(سیاست نیوز) حیدرآباد کو مرکزی زیر انتظام علاقہ بنائے جانے یا ملک کا دوسرا دارالحکومت بنانے کے متعلق اطلاعات پر یہ کہا جا رہاہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو اس سے تلنگانہ میں نقصان کا سامنا کرنا پڑیگا لیکن ایسا نہیں ہے کہ بی جے پی کی اس پر نظر نہیں ہے۔باوثوق ذرائع کے مطابق شہر کو بغیر اسمبلی کے مرکزی زیر انتظام علاقہ بناتے ہوئے مابقی تلنگانہ میں پارٹی اپنے رسوخ میں اضافہ کرے گی اور شہر حیدرآباد کی حد تک ڈیولپمنٹ کونسل کی تشکیل عمل میں لائی جائے گی جو موجودہ بلدیہ کو ترقی دیتے ہوئے کیا جائیگا ۔ حیدرآباد کو مرکزی زیر انتظام علاقہ بنانے کی صورت میں اس کا سب سے زیادہ نقصان سیاسی جماعتوں کو ہوگا کیونکہ ان کے اثر اور اختیارات میں نمایاں کمی آئیگی جبکہ عوام کو مجموعی اعتبار سے جن حالات کا سامنا کرنا پڑیگا وہ بھی قابل فکر ہیں لیکن عوام ان حالات سے سنبھل سکتے ہیںاور سیاسی قائدین کا سنبھلنا مشکل ہوجائے گا۔ حکومت ہند حیدرآباد کو ملک کا دوسرا صدر مقام یا دارالحکومت بناتی ہے اور اس کیلئے مکمل انفراسٹرکچر تیار کیا جاتا ہے تو حیدرآباد کی ترقی کی رفتار تیز ہوسکتی ہے۔17ستمبر کو حیدرآباد کے یوم انضمام کوسرکاری طور پر یوم آزادی منانے کا مطالبہ کرنے والی بی جے پی نے فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ ماہ 17 تاریخ کو وزیر داخلہ کے ذریعہ شہر میں پرچم کشائی کی رسم انجام دی جائیگی جسے ریاستی حکومت کی جانب سے روکے جانے کے کوئی امکانات نہیں ہیں جبکہ سابق میں بھی یہ روایت تمام سیاسی جماعتوں میں موجود تھی جہاں پرچم کشائی کی جاتی تھی لیکن اس مرتبہ یہ کہا جا رہاہے کہ حیدرآباد کو ڈاکٹر بی آر امبیڈکر جیسا دیکھنا چاہتے تھے وہ موقف فراہم کرنے کوشش کی جائیگی اور بی جے پی حیدرآباد کے انضمام کیلئے سردار پٹیل کو ہیرو کے طور پر پیش کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کر یگی کہ حیدرآباد کا مکمل انضمام حیدرآباد میں اب ہوگا ۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ ریاست دکن حیدرآباد کے انضمام اور تقسیم کے بعد جو حالات پیدا ہوئے تھے ان میں بائیں بازو جماعتوں کو اس خطہ میں سیاسی قوت حاصل ہونے لگی تھی اور ان کی قوت کے خاتمہ کیلئے کانگریس نے نہ صرف حیدرآباد میں سیاسی متبادل کو پیدا کیا بلکہ جہاں جیسی ضرورت رہی ویسی سیاسی قوت پیدا کرکے ملک کے تمام طبقات کو دستور کی روح کے مطابق کثرت میں وحدت کا عملی نمونہ بنانے کی کوشش کی ( باقی سلسلہ صفحہ 6 پر )