شہر میں اندرون 16 یوم قتل کی 10 وارداتیں، تنظیموں اور قائدین کی خاموشی !

   

Ferty9 Clinic

تشدد پر اکسانے والے مواد اور وجوہات پر کنٹرول کرنے پولیس کے سخت اقدامات ضروری

محمد مبشرالدین خرم
حیدرآباد۔17۔ڈسمبر۔ امت معاشرتی بے حسی میں مبتلاء ہوچکی ہے اور ہم ’خیرامت‘ ہونے کو فراموش کرتے ہوئے اصلاح کے پہلو کو اپنی زندگیوں سے نکال چکے ہیں!شہر کے تین کمشنریٹ حیدرآباد‘ رچہ کنڈہ اور سائبرآبادکے حدود میں گذشتہ 16یوم کے دوران پیش آنے والے 10 قتل کے واقعات سے شہر حیدرآباد کی لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کا اندازہ ہوجانا چاہئے لیکن بدقسمتی سے ان 10 قتل کے واقعات کے باوجود محکمہ پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں کی جانب سے اب تک کوئی جائزہ اجلاس تک منعقد نہیں کیاگیا اور نہ ہی کوئی سخت گیر اقدامات کئے گئے ۔ پولیس کے اس غیر ذمہ دارانہ رویہ سے مجرمین کی نہ صرف حوصلہ افزائی ہورہی ہے بلکہ وہ برسرعام اس طرح کے پر تشدد واقعات میں ملوث ہونے میں کوئی عار محسوس نہیں کر رہے ہیں۔ محکمہ پولیس کی جانب سے جاریہ سال کے اواخر میں سال بھر کے دوران مختلف جرائم کی شرح اور ان پر قابو پانے کے لئے کئے جانے والے اقدامات کی تفصیلات تو پیش کی جاتی ہیں لیکن جرائم کی جڑ تک پہنچتے ہوئے ان جرائم کے تدارک کے لئے اقدامات کی منصوبہ بندی کا رجحان ختم ہوچکا ہے جبکہ سابق میں اعلیٰ پولیس عہدیداراس طرح کے قتل کے واقعات یا کسی بھی طرح کے جرائم کی صورت میں نہ صرف عہدیداروں سے بلکہ سماج کی اہم شخصیات بالخصوص جو عوام کی نفسیات سے واقف ہوتے ہیں ان سے مشاورت کرتے ہوئے اس بات کا جائزہ لیا کرتے تھے کہ جرائم کی شرح میں اضافہ کی وجوہات کیا ہیں اور ان کے انسداد کے لئے کس طرح کے اقدامات کئے جانے چاہئے لیکن اب محکمہ پولیس کے عہدیداروں میں یہ رجحان ختم ہوچکا ہے اور وہ جرائم کی جڑ تک پہنچنے کے سلسلہ میں کوئی سائنسی طریقہ کار استعمال کرنے کے بجائے جرم کے متعلق فرد جرم عائد کرنے اور مجرم کی گرفتاری کو کامیابی کے طور پر پیش کرنے لگے ہیں۔قتل جیسے سنگین جرائم جو گذشتہ 16دن کے دوران پیش آئے ہیں ان میں بعض ایسے معاملات بھی شامل ہیں جن کے متعلق پولیس میں شکایت کی جاچکی تھی اور خدشات ظاہر کئے گئے تھے لیکن اس کے باوجود قتل ہوئے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پولیس نے شکایت موصول ہونے کے باوجود کاروائی کے بجائے معاملہ فہمی سے کام لیتے ہوئے شکایت کو نظرانداز کیا جس کے نتیجہ میں مجرم نے جرم کا ارتکاب کیا۔تلنگانہ میں پولیس عہدیداروں بالخصوص اعلیٰ پولیس حکام کو چاہئے کہ وہ مؤظف پولیس عہدیدار جو انسداد جرائم کے سلسلہ میں شہرت رکھتے تھے ان سے مشاورت کرتے ہوئے ایسی پالیسی تیار کریں جو کہ شہر حیدرآباد کو جرائم سے پاک بنانے کی کلید ثابت ہوسکے۔ محکمہ پولیس کا انحصار سی سی ٹی وی پرہونے کے نتیجہ میں پولیس کو جرم کے بعد مجرم کی نشاندہی اور جرم کے ثبوت و شواہد کے حصول میں آسانی ہورہی ہے لیکن جرائم کو روکنے کے سلسلہ میں کسی بھی طرح کی پیشرفت نہ ہونے کے سبب جرائم کم ہونے کے بجائے بڑھنے لگے ہیں۔ سابق میں قتل کے واقعات کو روکنے کے لئے شکایت یا اطلاعات یا پھر بدلہ کے لئے قتل کے خدشات کی بنیاد پر پولیس کی جانب سے دو فریقین میں ایک فریق کو ’شہر بدر‘ کیا جاتا تھا یا پھر دونوں ہی فریقین پر سخت نگرانی رکھی جاتی تھی لیکن اب شکایت موصول ہونے کے بعد بھی جرم کو روکنے کے لئے اقدامات سے گریز شہر کے حالات کو سنگین بنانے لگا ہے۔شہر حیدرآباد میں ہونے والے قتل کے واقعات پر ملی تنظیموں‘ قائدین ‘ مصلحین ‘ کے علاوہ عمائدین کی خاموشی سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ شہر حیدرآباد کے تشویشناک حالات کی اب کسی کو کوئی پرواہ نہیں رہی بلکہ ذمہ داران ملت اسلامیہ بھی سوشل میڈیا اور او ٹی ٹی پلیٹ فارمس پر وائرل پرتشدد مواد کو پسند کرنے لگے ہیں بلکہ اس مواد کو قابل اعتراض تصور نہیں کیا جا رہاہے ۔ ہندوستان کی تھیٹرس میں جاری نمائش میں ایک فلم جس میں قتل و غارت گیری کے علاوہ پر تشدد واقعات پر مبنی فلم کو پسند کئے جانے اور اس فلم کی دھوم سے ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ عوام میں تشدد کی مذمت کے بجائے تشدد پر ’جشن‘ منانے کی ذہن سازی کرنے کی کوشش کی جار ہی ہے۔محکمہ پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں کو چاہئے کہ وہ جرائم کی روک تھام کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے جرائم کی وجوہات کا باریکی سے جائزہ لینے کے علاوہ ان وجوہات کی جڑ تک پہنچنے کے اقدامات کرے کیونکہ منشیات‘ ناجائز تعلقات ‘ آپسی تنازعات کے علاوہ تشدد پر اکسانے والے مواد کو عام کرنے کے ذرائع پر قابو پانے کے اقدامات کئے جانے ناگزیر ہیں۔ ملت اسلامیہ کے ذمہ داروں کو بھی اس سلسلہ میں پولیس کے اعلیٰ عہدیدارو ں سے ملاقات کرتے ہوئے متوجہ کرنے کے علاوہ اصلاحی مہم کا فوری طور پر آغاز کرنا چاہئے اور پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی سالانہ ’پریس میٹ‘ کے دوران جرائم کی شرح اور گرفتاریوں کی تفصیلات پیش کرنے کے بجائے آئندہ سال جرائم کی روک تھام کے منصوبہ اور اقدامات سے متعلق بھی عوام کو واقف کروائیں۔