آفات سماوی کی شکایت تو نہیں ہے
خود ساختہ مسئلے ہیں یہ حل کیوں نہیں ہوتے
شہر میں بارش اور ٹرافک مسائل
تلنگانہ کے دارالحکومت شہر حیدرآباد میں تھوڑی سی بارش پر بھی سڑکیں تالاب میں تبدیل ہوجانا اور ٹرافک جام کے مسائل دن بہ دن بڑھتے جارہے ہیں ۔ شہر کی ترقی اور وسعت پاتی آبادی کے لیے حکومت اور سرکاری محکموں کے پاس ہنگامی منصوبوں کا فقدان نظر آرہا ہے ۔ حکومت کی نا اہلی کا خمیازہ شہریوں کو بھگتنا پڑے تو یہ ایک المیہ کہلائے گا ۔ اپنی شاندار کارکردگی کا ڈنکا بجاتے رہنے والی ٹی آر ایس حکومت کو شہریوں کی تکالیف کا احساس اور شہر کی بلدی و ٹرافک صورتحال سے نمٹنے کی صلاحیتوں سے محرومی کا اندازہ نہیں ہے تو پھر اپنے وعدؤں سے دستبردار ہوجانا چاہئے ۔ شہر میں حالیہ بارش نے سرکاری محکموں کی کارکردگی کی قلعی کھول دی ہے ۔ ٹرافک جام کے مسئلہ سے نمٹنے میں ٹرافک پولیس کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے اور وہ بعض مرحلوں میں بے بس نظر آئے تو یہ شہر کی ترقی کے لیے بنائے گئے منصوبوں کی ناکامی کا مظہر ہے ۔ گنجان آبادی والے یا قدیم آبادیوں میں ٹرافک کا دیرینہ مسئلہ تو برقرار ہے لیکن نئی بستیوں اور منظم طریقہ سے قائم کئے جانے والے علاقوں جیسے ہائی ٹیک سٹی ، مادھا پور ، گچی باولی اور شہر کے دیگر پاش سمجھے جانے والے محلوں میں بھی گھنٹوں ٹرافک کا مسئلہ اور پانی کی عدم نکاسی کی شکایت پائی جاتی ہے تو اسے حکومت کی روایتی لاپرواہی کہا جائے گا ۔ شہر کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس کی دیکھ بھال کرنے والوں نے عملی طور پر حقیقی مسائل کو یکسر نظر انداز کردیا ہے ۔ نیک ارادوں کی حامل حکومت اور ایک باخبر محکمہ بلدی نظم و نسق کے ساتھ ساتھ پولیس کو جب عام شہریوں کی پریشانیوں کو دور کرنے کی فکر کا ہونا لازمی ہے ۔ بارش کے پانی کے بہاؤ اور نکاسی کے لیے ہر سال موسم برسات سے قبل منصوبوں کی تیاری و حکمت عملی کی زبردست تشہیر کی جاتی ہے لیکن جب بارش ہوتی ہے تو شہریوں کو درپیش مسائل جوں کا توں دکھائی دیتے ہیں ۔ تلنگانہ حکومت کے وزیر بلدی نظم و نسق کے ٹی راما راؤ نے منگل اور چہارشنبہ کی بارش کے بعد یہ ٹوئیٹ کرتے ہوئے فخر محسوس ہوا کہ شہر میں ماہ ستمبر میں ہونے والی بارش سے 111 سال کا ریکارڈ دوہرایا ہے ۔ حیدرآباد کے بزرگ شہریوں میں ماہ ستمبر کی ستمگیروں کی یادیں برقرار ہیں ۔ اس شہر میں 28 ستمبر 1908 ء کو آنے والی طغیانی اور تباہی کے واقعات اب بھی ذہنوں میں تازہ ہیں لیکن ماضی میں متعلقہ محکموں نے جو منصوبہ جاتی کام انجام دئیے تھے ، اس سے شہریوں کو بڑی راحت ملی تھی ۔ ماضی کے منصوبہ جاتی کاموں تک ہی محدود یہ شہر حیدرآباد عصر حاضر کے تقاضوں سے محروم ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ شہر کی بڑھتی آبادی کے مطابق ٹرافک کے مسائل ، بارش کے پانی کی نکاسی کا انتظام اور گنجان علاقوں یا نشیبی علاقوں میں پانی کے ٹہراؤ کے مسئلہ کو دور کرنے کے لیے ہنگامی منصوبے بنانے چاہئیں ۔ شہر کے مسائل پر اگر سیاسی پہلو سے جائزہ لیا جائے تو یہاں کی مقامی جماعت کے کارپوریٹرس نے شہر کے جسم کو بری طرح سے نوچ ڈالا ہے ۔ اس لیے شہریوں کو مجبوری کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھنا پڑ رہا ہے ۔ مگر ایک اہم بات یہ ہے کہ شہری بھی آئے دن درپیش مسائل و مصائب کے باوجود خاموشی اختیار کرلیتے ہیں ۔ نتیجہ میں ان کے لیے ہر گذرتے دن مسائل میں اصافہ کیا جارہا ہے ۔ اولین طور پر فطری بات یہ کہ شہریوں کو از خود یہ نوٹ لینا ہوگا کہ آیا ان کے منتخب نمائندے صرف لفاظی تک ہی محدود کیوں ہیں ۔ شہریوں کے سامنے چیلنج اس بات کا ہے کہ آیا وہ اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام سیاسی قیادت سے استفسار کرنے کے حق سے استفادہ کیوں نہیں کررہے ہیں ۔ آج عوام کو جو مسائل درپیش ہیں اور ان میں دن بہ دن اضافہ ہونے کی وجہ سیاسی منافع کے حریض سیاستدانوں کی براہ راست لاپرواہی کوتاہی اور تساہی ہے ایسے میں عوام کی خاموشی نے انہیں مزید بے پرواہ بنادیا ہے ۔۔