شہر کے امن و گنگا جمنی تہذیب کا تحفظ ‘ ووٹرس کے فیصلہ کی گھڑی

,

   

نفرت کی سیاست کوعوام نے مسترد کردیا، ترقی اور خوشحالی کیلئے بلدیہ پر ٹی آر ایس اقتدار ضروری
حیدرآباد۔ حیدرآباد میں امن، رواداری و گنگا جمنی تہذیب کے تحفظ کیلئے فیصلہ کی گھڑی آپہنچی ہے۔ گریٹر حیدرآباد بلدی انتخابات کی مہم کے دوران گذشتہ 8 دنوں میں رائے دہندوں کو کئی تلخ تجربات اور چونکا دینے والے حالات سے گذرنا پڑا۔ عوام نے لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات کی مہم کا کئی مرتبہ مشاہدہ کیا لیکن بلدی انتخابات کے باوجود قومی سطح کے قائدین اور مہم کو جس انداز میں فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی اس نے امن پسند شہریوں کو چوکس و چوکنا کردیا ہے۔ انتخابی مہم کا اختتام ہوچکا اور پسند کے امیدواروں کے انتخاب کیلئے غور و فکر کرنے ووٹرس کے پاس 24 گھنٹے کا وقت ہے۔ ایسے میں شہر کو فرقہ واریت اور تفرقہ پسند طاقتوں سے بچانے کے حق میں فیصلہ کرنے کا عوام نے پہلے ہی تہیہ کرلیا ہے۔

حیدرآباد بلدی الیکشن کی مہم نے قومی سطح کی اہمیت اختیار کرلی جس کیلئے بی جے پی ذمہ دار ہے۔ مجالس مقامی کے انتخابات یوں تو بنیادی مسائل پر لڑے جاتے ہیں لیکن بی جے پی نے فرقہ پرستی ایجنڈہ پر عمل کرکے شہر کی فضاء کو مکدر کرنے کی کوشش کی تاکہ شمالی ہند کی ریاستوں کی طرح فرقہ واریت کی لہر پر سوار ہوکر سیاسی مقاصد کی تکمیل کی جاسکے۔ حیدرآباد میں عوام سابق میں فرقہ واریت کے زہر سے کافی متاثر ہوچکے ہیں اور وہ حیدرآباد کے امن کو بگاڑنے کی مزید اجازت نہیں دے سکتے۔ آج بھی حیدرآباد کا شمار دنیا کے اُن چنندہ شہروں میں ہوتا ہے جو امن و سکون اور ترقی کے ساتھ رہائش کیلئے پسندیدہ تصورکئے جاتے ہیں۔ بی جے پی نے وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی بالواسطہ مہم کا حصہ بنانے کی کوشش کی اور مہم کے اختتام تک قومی قائدین کی حیدرآباد آمد کا سلسلہ جاری رہا۔ کسی ریاست کے اسمبلی چناؤ میں بھی اس قدر قومی قائدین نے بی جے پی کی مہم میں حصہ نہیں لیا جس قدر حیدرآباد بلدی انتخاب میں تانتا بندھ گیا تھا۔ عوام کو امید تھی کہ سیاسی جماعتیں ترقی کے ایجنڈہ کے ساتھ رجوع ہوں گی اور عوام کے دیرینہ مسائل کی یکسوئی کے علاوہ آئندہ 5 برسوں میں ترقی کے عزائم سے واقف کرائیں گے لیکن قومی سطح کی جماعت کا دعویٰ کرنے والی بی جے پی نے خود کو ایک شہر تک نہ صرف محدود کردیا بلکہ عوامی مسائل کے بجائے سماج میں پھوٹ پیدا کرنے والے ایجنڈہ کے ذریعہ عوام سے رجوع ہوکر یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ حیدرآباد کو احمد آباد اور لکھنؤ میں تبدیل کرنا اُن کا عین مقصد ہے۔ 2014 میں تلنگانہ کی تشکیل کے بعد آندھرائی حکمرانوں کی ناانصافیوں سے اُبھرنے کی کوششوں کا آغاز ہوا۔ حیدرآباد نے ترقی اور فلاح و بہبود کی سمت نئی کروٹ لیتے ہوئے انتہائی کم عرصہ میں قومی سطح پر اپنی شناخت بنائی۔ فرقہ پرست طاقتیں شہر میں امن اور ترقی کو برداشت کرنے تیار نہیں ہیں کیونکہ امن و خوشحالی ہمیشہ تفرقہ پسند طاقتوں کی آنکھوں میں کھٹکتی رہی ہے۔

ترقی کیلئے امن ضروری ہے اور ٹی آر ایس نے لااینڈ آرڈر صورتحال پر قابو پاکر ترقیاتی ایجنڈہ پر عمل شروع کیا تھا۔ ایسے وقت جبکہ تلنگانہ سرمایہ کاری اور انفراسٹرکچر سہولتوں میں دیگر ریاستوں سے مسابقت کررہا ہے فرقہ پرست طاقتوں نے تلنگانہ کو پسماندگی کی طرف جھونکنے سازش کی ہے ۔ موجودہ صورتحال میں بالخصوص اہلیان حیدرآباد کی بھلائی اسی میں ہے کہ ترقی و خوشحالی کی ضامن ٹی آر ایس کو بھاری اکثریت سے منتخب کرکے حیدرآباد کا تحفظ کریں۔ حیدرآباد میں امن و خوشحالی کا اثر دیگر اضلاع پر پڑیگا اور وہاں عوام پسماندگی سے نکل کر ترقی کی سمت سفر کرسکتے ہیں۔ شہر میں سیکولر اور جمہوریت پسند طاقتوں کے علاوہ بائیں بازو نظریات کے حامل جہد کاروں نے فیصلہ کیا ہے کہ بلدی انتخابات میں ٹی آر ایس کو حیدرآباد کا اقتدار حوالے کیا جائے تاکہ ریاستی حکومت اور جی ایچ ایم سی کے بہتر اشتراک سے ترقی کی ریل کسی رکاوٹ کے بغیر آگے بڑھتی رہے۔