شہر کے تمام بڑے دواخانے نظام دور حکومت کے مرہون منت

,

   

آزادی کے بعد شہر میں کوئی بڑا ہاسپٹل قائم نہیں ہوسکا، موجودہ دواخانوں کومحض ترقی دینے کے اقدامات

محمد مبشر الدین خرم
حیدرآباد: شہر حیدرآباد میں کورونا وائرس مریضوں کوفراہم کی جانے والی سہولتوں اور دواخانوں کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ریاست تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد میں آزادی کے بعد ایک بھی دواخانہ کا قیام عمل میں نہیں لایا گیا بلکہ جو دواخانہ آزادی سے قبل سے موجود ہیں ان دواخانو ںکو ہی ترقی دینے کے اقدامات کئے گئے ہیں اور نئے دواخانہ کی تعمیر کے نا م پر سال گذشتہ تلنگانہ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس کا قیام عمل میں لایا گیا جو کہ اسپورٹس کامپلکس میں قائم کیا گیا ہے ۔ گاندھی ہاسپٹل جو کہ کورونا وائرس کے مریضوں کے لئے مخصوص دواخانہ قرار دیا گیا ہے وہ دراصل 1851 میں قائم کیا گیا تھا بعد ازاں اس دواخانہ کو 1900میں 95بستروں پر مشتمل کنٹونمنٹ ہاسپٹل میں تبدیل کیا گیا اس کے بعد موجودہ گاندھی ہاسپٹل کو 1913 میں کنگ ایڈورڈ میموریل ہاسپٹل میں تبدیل کیا گیا اور آزادی کے بعد 1958میں اسے گاندھی میڈیکل کالج کے طور پر ترقی دی گئی ۔ چیسٹ ہاسپٹل ایرہ گڈہ 1888 میں قائم کیا گیا تھا جو کہ نواب فخر الملک کے محل میں قائم کیا گیا ہے جہاں پر آج کورونا وائرس کے مریضوں کے علاوہ پھیپڑوں کے عارضہ اور ٹی بی کا علاج کیا جا رہاہے۔ ریاست دکن حیدرآباد میں قرنطینہ کے لفظ کے ساتھ پہلا دواخانہ قائم کیا گیا جو کہ آج فیور ہاسپٹل کے نام سے مشہور ہے ۔ 1915میں ایرن گٹہ میں اس دواخانہ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا لیکن 1923میں اس دواخانہ کو شہر حیدرآباد کے نواحی علاقہ نلہ کنٹہ میں منتقل کردیا گیا تھا اور اسے کورنٹائن ہاسپٹل قرار دیا گیا تھا جو کہ تلفظ کی دشواری کے سبب کورنٹی کا دواخانہ کہلایا اور اب فیور ہاسپٹل کے نام سے معروف ہے جہاں کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کرنے کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔ کنگ کوٹھی دواخانہ جو کہ کورونا وائرس کے مریضوں کے لئے ضلع ہاسپٹل قرار دیا گیا ہے یہ دواخانہ بھی سابق فرماں روان دکن نواب میر عثمان علی خان بہادر کی کوٹھی نذری باغ کے ایک حصہ میں قائم کیا گیا ہے۔ دواخانہ عثمانیہ سالار جنگ اول نے سال 1866میں قائم کیا تھا جس کا نام افضل گنج دواخانہ تھا لیکن موجودہ دواخانہ عثمانیہ کی تعمیر کا کام 1919میں شروع کیا گیا اور 1926میں موجودہ عمارت کی تعمیر مکمل ہوئی اور اس دواخانہ کو نواب میر عثمان علی خان کے نام سے موسوم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ سال گذشتہ بھی کورونا وائرس کی وباء کے دوران اس دواخانہ میں مریضوں کے علاج کے اقدامات کئے گئے تھے ۔ نظامیہ طبی یونانی دواخانہ چارمینار جہاں سال گذشتہ کے علاوہ جاریہ سال بھی کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کیا جا رہاہے وہ بھی 1938 میں قائم کیا گیا ہے اور اس دواخانہ کو یونانی حکماء کی ترقی و ترویج کے علاوہ یونانی طریقہ علاج کے فروغ کے لئے قائم کیا گیا تھا ۔ اس دواخانہ کی تعمیر کا آغاز 1926 میں کیا گیا تھا اور 1938میں موجودہ تاریخی عمارت چارمینار کے دامن میں شفاء خانہ یونانی کے ذریعہ خوبصورتی میں اضافہ کی مثال ہے لیکن اسی دواخانہ کے احاطہ میں گذشتہ 7سال سے ایک قطعہ اراضی پر ایک منزلہ عمارت کی تعمیر مکمل نہیں کی جاسکی ہے۔ نمس نظامس انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس پنجہ گٹہ کا قیام بھی آصف سابع نواب میر عثمان علی خان کے دوران حکومت میں عمل میں لایا گیا تھا ۔ ڈاکٹر ایم رنگا ریڈی جو کہ معروف آرتھوپیڈک تھے نے نواب میر عثمان علی خان کو آرتھوپیڈک ہاسپٹل قائم کرنے پر راضی کیا تھا جس پر انہوں نے نمس کے قیام کو منظوری دی تھی اور نمس کے قیام کے بعد شہزادی در شہوار نے اس دواخانہ کا افتتاح انجام دیا تھا ۔نمس میں اب سرکردہ شہریوں‘ سیاستدانوں‘ صحافیوں اور دیگر اہم شخصیات کو کورونا وائرس کی صورت میں شریک کیا جا رہا ہے اوران کا علاج نمس میں کیا جا رہاہے۔ بچوں کو کورونا وائرس کی صورت میں سال گذشتہ حکومت کی جانب سے نیلوفر دواخانہ میں بچوں کے علاج کی سہولت فراہم کرنے کے اقدامات کئے تھے اور اس سال بھی حکومت کی جانب سے نیلوفر دواخانہ میں بچوں کے علاج کے انتظامات کئے جا رہے ہیں۔ نیلوفر دواخانہ برائے اطفال و خواتین کا قیام 1949 میں عمل میں لایا گیا جو کہ شہزادی نیلوفر نے غرباء کی مدد اور بچوں کی نگہداشت کو بہتر بنانے کے لئے قائم کیا تھا۔ شہزادی نیلوفر نواب میر عثمان علی خان آصف سابع کی بہو اور معظم جاہ بہادر کی اہلیہ تھیں ۔