شہیدوں کی زمیں ہے جس کو ہندوستان کہتے ہیں

   

کشمیر خودکش حملہ … مرکز کی ناکامی کا نتیجہ
گولی اور گالی نہیں، میٹھی بولی چاہئے

رشیدالدین
کشمیر میں دہشت گردوں کے حملہ میں 40 سے زائد سیکوریٹی جوانوں کی شہادت پر ملک غم میں ڈوبا ہوا ہے اور اس بزدلانہ کارروائی کے خلاف غم و غصہ کی لہر پائی جاتی ہے۔ کشمیر میں پیام امن کے ذریعہ شہریوں کو خوف سے نجات دلاکر پرسکون زندگی بسر کرنے کی کوششوں میں مصروف سی آر پی ایف جوانوں پر حملہ کیا گیا۔ فرض شناس اور بہادر جوانوں نے ملک پر اپنی جان نچھاور کردی۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ سرحدی ریاست میں فوج اور نیم فوجی دستوں کے جوان جان ہتھیلی پر رکھ کر فرائض انجام دے رہے ہیں۔ عام شہریوں کی حفاظت کے لئے انہوں نے اپنی جان کو خطرہ میں ڈال رکھا ہے۔ حالانکہ وہ خود بھی اپنے خاندانوں کی دیکھ بھال اور ضرورتوں کی تکمیل کے پابند ہیں۔ ایک طرف سرحد کی حفاظت تو دوسری طرف داخلی ملک دشمن عناصر کا سامنا ۔ جوانوں نے کشمیر کی طرف اٹھنے والی ہر بری نظر کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے اسے ہندوستان کے اٹوٹ حصہ کے طور پر بر قرار رکھا ہے۔ کشمیر کی تاریخ میں یہ اب تک کی بڑی کارروائی ہے۔ یوں تو اکثر سرحد پر جوانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن اب تو دشمن نے ہندوستان کے سینہ پر وار کرتے ہوئے ملک کی حمیت کو للکارا ہے ۔ یوں تو سابق میں تین بڑی کارروائیاں سیکوریٹی فورسس کے خلاف انجام دی جاچکی ہیں۔ یکم اکتوبر 2001 ء کو جموں و کشمیر اسمبلی پر حملے کے ذریعہ 38 افراد کو ہلاک کیا گیا۔ 14 مئی 2002 ء کو جموں کے آرمی کنٹونمٹنٹ پر حملہ کرتے ہوئے 36 افراد کو نشانہ بنایا گیا۔ 24 نومبر 2002 ء کو جموں میں خودکش حملہ میں 14 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ 8 ستمبر 2016 ء کو یوری کیمپ پر فدائن حملہ میں 19 فوجی جوان شہید ہوئے۔ جوانوں کی یہ شہادت ضائع نہیں جائے گی اور ہندوستان اپنے دفاع کا بھرپور حق اور صلاحیت رکھتا ہے۔ جب تک کشمیر سے ملک دشمن عناصر کا صفایا نہیں ہوجاتا ، اس وقت تک جوانوں کی شہادت کا قرض باقی رہے گا۔ سرحد اور اندرونی علاقوں میں جوانوں کے عدم تحفظ کے لئے آخر کون ذمہ دار ہے۔ دہشت گرد حملوں کے اندیشہ کے باوجود احتیاطی اقدامات اور چوکسی میں حکام کی ناکامی سوالوں کے گھیرے میں ہے۔ کس طرح اس قدر بڑی تعداد میں سیکوریٹی جوان بہ آسانی نشانہ بن گئے۔ یہ حکام اور انٹلیجنس ایجنسیوں کی ناکامی نہیں تو اور کیا ہے ؟ جس علاقہ میں حملہ کیا گیا وہ پہلے ہی سے شورش زدہ بتایا جاتا ہے ، اس کے باوجود کوئی چوکسی نہیں تھی ۔ بارود سے بھری کار سی آر پی ایف کے ٹرک سے ٹکرانے کے منصوبہ کا پولیس اور ملٹری انٹلیجنس کو کس طرح علم نہیں ہوا۔ آخر کب تک فوج اور نیم فوجی دستوں کی قیمتی جانوں پر خطرہ منڈلاتا رہے گا۔ اگر حکومت اور سیکوریٹی ایجنسیوں کی بے حسی کا یہی حال رہا تو شورش زدہ علاقوں میں فرائض انجام دینے سے انکار کی نوبت آجائے گی تاکہ خاندانوں کو بے سہارا ہونے سے بچالیں۔ نریندر مودی حکومت نے پاکستان کی جانب سے سرحد پر کارروائی کے جواب میں سرحد کے اس پار سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ کیا تھا۔ سرجیکل اسٹرائیک کی سالگرہ بھی منائی گئی، اس کے باوجود سرحدیں کس طرح غیر محفوظ ہیں اور دہشت گرد کس طرح داخل ہورہے ہیں۔ پلوامہ کا یہ سانحہ وادی میں امن و ضبط کی ابتر صورتحال اور انٹلیجنس کی ناکامی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے ۔ ناکامی کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرنے کیلئے کشمیر میں عوامی منتخب حکومت نہیں ہے۔ عوامی منتخب حکومت کو گرانے کے بعد صدر راج نافذ کردیا گیا ہے ۔ موجودہ گورنر صورتحال کو بہتر بنانے اور عوام کا دل جیتنے میں ناکام رہے ۔ لہذا انہیں فوری واپس طلب کیا جائے۔ کشمیر میں قیام امن کیلئے اٹل بہاری واجپائی اور ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دور میں مساعی ضرور کی گئی لیکن دیرپا نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ اس کی اہم وجہ کشمیر اور کشمیری عوام سے کئے گئے وعدوں کو فراموش کردینا ہے ۔ حکومتوں نے سیاسی اور عہدیداروں کی سطح پر تو بات چیت کی لیکن عوام کا دکھ درد بانٹنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ بلٹ کے بجائے بیالٹ کا نعرہ بھی بے اثر رہا۔ نریندر مودی نے لال قلعہ سے اعلان کیا تھا کہ گولی یا گالی کے بجائے محب وطن کشمیریوں کو گلے لگاکر میٹھی بولی سے کشمیر کے مسائل حل کئے جائیں گے۔ انہوں نے انسانیت ، جمہوریت اور کشمیریت کا نعرہ بھی لگایا تھا۔ یہ باتیں اور نعرے محض کاغذی ثابت ہوئے۔ ملک کو امید تھی کہ نریندر مودی لال قلعہ کی فصیل سے کئے گئے وعدہ پر اپنی سنجیدگی کا مظاہرہ کریں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ انسانیت اور میٹھی بولی کے بجائے کشمیریوں کے خلاف پیالٹ گنس کا استعمال کیا گیا ۔ جمہوریت کے نام پر عوامی منتخب حکومت کو زوال سے دوچار کردیا گیا ۔ بی جے پی کی تائید سے پی ڈی پی کی محبوبہ مفتی حکومت برقرار تھی اور بی جے پی نے تائید واپس لیتے ہوئے صدر راج کی راہ ہموار کردی۔ گورنر نے مرکز سے وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے غیر بی جے پی جماعتوں کو تشکیل حکومت کی اجازت نہیں دی اور اسمبلی کو تحلیل کردیا۔ عوامی فیصلہ کو نظر انداز کرتے ہوئے کس طرح امن کی توقع کی جاسکتی ہے ۔ اس طرح صورتحال میں بگاڑ اور خودکش حملہ کیلئے مرکز کی نریندر مودی حکومت ذمہ دار ہے۔ مرکز نے کشمیریوں کو گلے لگانے کے بجائے ان کی حب الوطنی پر شک کیا۔ کشمیری عوام دہشت گردی کی تائید میں ہرگز نہیں ہے اور وہ امن و سکون چاہتے ہیں۔ ملک کی تقسیم کے وقت کشمیری عوام نے ہندوستان کو اپنا وطن تسلیم کیا اور پاکستان نہیں گئے ۔ ان کا یہ فیصلہ کسی کے دباؤ کے تحت نہیں بلکہ ان کی مرضی سے لیا گیا تھا ۔ پھر بھی ان کی حب الوطنی پر شک کرنا کہاں تک جائز ہے۔
پلوامہ کے دہشت گرد حملہ پر قوم متحد ہے اور اس معاملہ میں حکومت اور اپوزیشن کو سیاسی استحصال کی کوششوں سے گریز کرنا چاہئے ۔ جوانوں کی شہادت پر سیاست کرنا ملک کے اتحاد کو کمزور کرنا ہے۔ جب معاملہ قوم کے مشترکہ مفاد کا ہو تو جماعت کی وابستگی سے بالاتر ہوکر ایک آواز بننا ہوگا۔ دفاعی شعبہ کے مبصرین کا ماننا ہے کہ سیکوریٹی میں کوتاہی کے سبب یہ واقعہ پیش آیا۔ حافظ سعید اور مسعود اظہر کی دھمکیوں کے باوجود انٹلجنس اور سیکوریٹی ایجنسیوں نے احتیاطی قدم نہیں اٹھائے۔ وزیراعظم نے گزشتہ دنوں کشمیر کا دورہ کیا تھا اور وادی کی ترقی کے سلسلہ میں کئی وعدے کئے گئے۔ اب جبکہ 40 سے زائد بہادر جوانوں نے ملک پر اپنی جان نچھاور کردی ، افسوس کہ وزیراعظم نے ٹوئیٹر پر اس حملہ کی مذمت کی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ واقعہ کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم بذاتِ خود سرینگر پہنچ جاتے تاکہ سیکوریٹی جوانوں کے حوصلوں کو بڑھانے میں مدد ملتی ۔ مختلف تہواروں کو فوج کے درمیان مناتے ہوئے نریندر مودی گزشتہ پانچ برسوں میں کئی بار میڈیا کی زینت بن چکے ہیں لیکن مصیبت کی اس گھڑی میں انہوں نے دورہ تو دور کی بات ہے ٹوئیٹر پر بیان دیتے ہوئے قوم کو مایوس کیا ہے ۔ وزیراعظم کو چاہئے تھا کہ وہ قومی ٹیلی ویژن چیانل پر قوم سے خطاب کرتے تاکہ عوام کو یہ بھروسہ دلایا جاسکے کہ حکومت جوانوں کی شہادت کو ضائع ہونے نہیں دے گی۔ اس طرح کے واقعات ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی اور دوریوں میں اضافہ کا سبب بن سکتے ہیں۔ عمران خان کے برسر اقتدار آنے کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ ہندوستان کے بارے میں ان کا رویہ مثبت رہے گا لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی فوج کے دباؤ میں ہیں۔ نواز شریف حکومت نے جب کبھی ہندوستان سے تعلقات بہتر بنانے اور پاکستان سے سرگرم دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کی کوشش کی، فوج نے انہیں نہ صرف روک دیا بلکہ انہیں اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔ پاکستان میں کسی بھی حکومت کی برقراری کا انحصار فوج اور آئی ایس آئی پر ہوتا ہے۔ جب تک حکومت ان دونوں اداروں کے اشاروں پر کام کرتی ہے ، کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ عمران خان نے ہندوستان کی طرف دوستی کا ہاتھ رسمی طور پر ضرور بڑھایا لیکن سرحد پار دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ ہندوستان کے اعتبار سے پاکستان ایک ناقابل بھروسہ پڑوسی ہے۔ اگر عمران خان ہندوستان سے دوستی کے بارے میں واقعی سنجیدہ ہیں تو انہیں حافظ سعید اور مسعود اظہر کی تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے جو پاکستان میں مخالف ہندوستان سرگرمیوں کو انجام دینے کے عملاً لائسنس ہولڈر ہیں۔ ممبئی دہشت گرد حملہ کے خاطیوں کے خلاف پاکستان نے آج تک کوئی کارروائی نہیں کی۔ جب تک پاکستان ان تنظیموں پر روک نہیں لگائے گا ، اس وقت تک تعلقات کا خوشگوار ہونا ممکن نہیں۔ بعض پاکستانی صحافیوں کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے خلاف بیان بازی پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کا اہم انتخابی ایجنڈہ ہے ۔ اگر وہ ایجنڈہ سے دستبردار ہوجائیں تو انہیں عوام مسترد کردیں گے۔ نریندر مودی نے 2014 ء میں اپنی حلف برداری کے وقت سارک ممالک کے سربراہوں کے ساتھ نواز شریف کو بھی مدعو کرتے ہوئے دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا ، اس کے بعد وہ بن بلائے مہمان کی طرح نواز شریف کو سالگرہ کی مبارکباد دینے لاہور پہنچ گئے۔ اس خیرسگالی کا جواب دہشت گرد کارروائیوں کی شکل میں ملا۔ سابق میں اٹل بہاری واجپائی نے جب خیرسگالی دکھائی تو جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے بھی ہندوستانی عوام کی امیدوں پر پانی پھیر دیا تھا۔ پلوامہ خودکش حملہ پر منور رانا نے یہ شعر ہندوستانی جوانوں کی نذر کیا ہے ؎
شہیدوںکی زمیں ہے جس کو ہندوستان کہتے ہیں
یہ بنجر ہوکے بھی بزدل کبھی پیدا نہیں کرتی