شیخ الاسلام مجاہداعظم و مصلح کبیر

   

ابوزہیر سید زبیر ہاشمی نظامی، مدرس جامعہ نظامیہ
اس خاکدان عالم میں جب کسی بندۂ خاص کو وجود بخشا جاتا ہے تو اس کے موجود ہونے سے پہلے غیبی اشارہ ہوتا ہے، جس میں اس کے خصوصی نوعیت والی چیزوں کی بشارت ہوتی ہے۔ چنانچہ بانیٔ جامعہ نظامیہ شیخ الاسلام حضرت مولانا محمد انوار اﷲ فاروقی رحمہ اللہ الباری کی ولادت سے قبل انکی والدۂ ماجدہ نے ایک رات خواب میں حضرت نبی کریم صلی اﷲعلیہ و آلہٖ وسلم کو قرآن مجید کی تلاوت فرماتے دیکھا۔ ایک بزرگ نے خواب سن کر فرمایا ’’ایک لڑکا تولد ہوگا، جو حافظ قرآن اور محافظ علومِ فرقان ہوگا‘‘۔
حضرت شیخ الاسلام کی ولادت ۴؍ربیع الثانی ۱۲۶۴؁ھ کو بمقام ناندیڑ مہاراشٹرا ہوئی۔ پانچ سال گزرنے کے بعد مولانا سید شاہ بدیع الدین صاحب رفاعی قندھاری سے قرآن شریف ناظرہ کی تکمیل فرمائی۔ اور سات سال کی عمر میں حضرت حافظ امجد علی صاحب کے پاس قرآن مجید کا حفظ شروع فرمایا اور تقریبا گیارہ سال کی عمر میں حفظ قرآن مجید کی سعادت سے بہرہ اندوز ہوئے۔ آپ نسبًا فاروقی ہیں۔ سلسلۂ نسب انچالیسویں پشت میں خلیفۂ دوم حضرت سیدنا عمرفاروق رضی اﷲعنہ پر منتہی ہوتا ہے۔
حفظ قرآن مجید سے فراغت کے بعد ابتدائی تعلیم والد ماجد مولانا محمدشجاع الدین صاحب قندھاری و دیگر سے حاصل کی۔ اعلیٰ علوم و فنون کی تکمیل مولانا عبدالحلیم اور مولانا محمد عبدالحی فرنگی رحمہما اﷲ سے کی۔ علوم شریعت کی تحصیل و تکمیل کے بعد شیخ الاسلام سلوک کی تکمیل اپنے والد ماجد سے پائی اور جملہ سلاسل (قادریہ، چشتیہ، نقشبندیہ وغیرہ) میں بیعت کی اور مدینہ منورہ میں شیخ وقت مرشدالعلماء حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ الباری سے مکرر بیعت کی اور منازل سلوک کی تکمیل فرمائی۔ حضرت حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی رحمہ اللہ الباری نے بلاطلب خلعتِ خلافت سے سرفراز فرمایا۔
امیر ملت استاذ الاساتذہ حضرت علامہ مفتی محمد عبدالحمیدرحمہ اﷲالباری (سابق شیخ الجامعہ، جامعہ نظامیہ و رکن تاسیس مسلم پرسنل لابورڈ) فرماتے ہیں جسکو کتاب ’’مرقع انوار‘‘ (مرتب مولانا شاہ محمد فصیح الدین نظامی) میں محفوظ کیا گیا ہے: ’’عموماً ذی علم اشخاص کو ہدایت فرماتے کہ اوراد و اذکار کے بجائے ہمیشہ علوم دینیہ کی تعلیم و تعلم اور انکی اشاعت میں کوشاں رہیں۔ کیونکہ اس کے برابر کوئی عبادت باعثِ تقرب الٰہی نہیں ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺکے خلق عظیم کے بلند ترین مقام پر ہونے کی شہادت دی۔ ’’ وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِـيْمٍ‘‘۔ آپ نے دینی تعلیم و تربیت سے ہر مستفیض کو اسکی استعداد و صلاحیت کے لحاظ سے فیض حاصل کرنے کا موقع فراہم فرمایا۔ ارشاد ہے کہ ’’بعثت لاتمم مکارم الاخلاق‘‘ مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کیلئے مبعوث کیا گیا ہے۔ حضرت شیخ الاسلام بانیٔ جامعہ نظامیہ کے مندرجہ ذیل اخلاق و عادات سے واضح ہے کہ فیض نبوی ﷺکے اکتساب کی آپ میں کتنی بہتر صلاحیت و عمدہ استعداد تھی۔ شیخ الاسلام کی غذا بالکل سادہ تھی۔ دسترخوان یا کسی جگہ بھی جو کچھ بھی سامنے آتا، تناول فرماتے۔ کسی چیز کی فرمائش نہ کرتے۔ اعلیٰ حضرت ظل سبحانی کے پاس سے اکثر میوہ اور مٹھائیاں وغیرہ آتیں تو اس میں سے کبھی کبھی کچھ کھالیا کرتے، ورنہ سب تقسیم کردیتے۔ (سبحان اللہ) دو وقت کھانے کی عادت تھی اور وہ بھی بہت مختصر ایک یا دو پھلکے تناول فرماتے۔ آپ کا لباس بھی بالکل سادہ تھا۔ آپ لباس کے اصلی مقصد یعنی تن پوشی پر اکتفاء کرتے۔ محض زینت کیلئے اسراف اچھا نہ سمجھتے۔ نماز کے وقت آپ ہمیشہ پورا لباس یعنی جبہ، عمامہ وغیرہ پہن لیا کرتے تھے۔ اور کبھی عمامہ پر سے چادر بھی اوڑھ لیتے اور سخت گرمی کے موسم میں بھی اس کی پابندی فرماتے تھے۔ ایک دفعہ ایک صاحب نے آپ سے اس کے متعلق استفسار کیا تو جواب میں آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’ خُذُوْا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ‘‘ یعنی نماز کے وقت پوری زینت نہ کرنا حکم خداوندی کے خلاف ہے۔ آپ کی زندگی ملت بیضاء کے بالکل مطابق تھی، کھانے، پینے، سونے، بیٹھنے چلنے پھرنے۔ غرض ہر بات میں اسکا خیال رکھتے کہ کوئی بات شریعت کے خلاف نہ ہونے پائے۔ چھوٹی چھوٹی باتیں بھی خلاف شرع ظاہر نہ ہوتیں۔ پابندیٔ نماز کا یہ عالم تھا کہ کبھی کوئی نماز قضاء نہیں ہوتی۔ حتی کہ مرض الموت میں جب آپؒ کا اٹھنا بیٹھنا مشکل ہوگیا تھا، تیمم کرکے لیٹے لیٹے ہی نماز ادا فرماتے ۔ یہاں تک کہ غشی کے وقت کی نمازیں بھی بعد میں ادا فرمالیتے۔
شیخ الاسلام بانیٔ جامعہ نظامیہ کے اصلاحی کارنامے:
ملک میں جہالت کا دور دورہ تھا۔ عیش و نشاط، گانے بجانے عام تھے، فسق و فجور کا بازار گرم تھا۔ ایسے سخت ماحول میں آپ نے نہایت خاموشی سے انکی اصلاح کی جانب توجہ فرمائی اور تنظیم بناکر بہ تدریج ان کی اصلاح کا کام شروع کیا گیا۔مثلًا
۱ } اہل خدمات شرعیہ کیلئے انعامات و غیرہ مقرر تھے، مگر شرعی خدمات کی انجام دہی کا نام نہ تھا تو آپ نے اسکو جاری فرمایا۔
۲ } منظم طریقہ سے انکی تعلیم و تربیت کا بندوبست فرمایا۔
۳ } تعلیم یافتہ اہل خدمات سے اہل دیہات کے تعلیم و اخلاق کی درستگی کا کام متعلق کیا گیا۔۴ } واعظین مقرر کئے گئے، نکاح و ازدواج کے سلسلہ میں جب کبھی زوجین میں تفریق ہوجاتی تو مہر و غیرہ منضبط نہ ہونے کی وجہ سے جھگڑے ہوجاتے۔ عدالت تک نوبت آتی۔ اس خرابی کو دور کرنے کیلئے سیاہہ جات مرتب کروائے گئے۔ جن میں ایجاب وقبول، شہادت، مقدار مہر وغیرہ کا اندراج ہوتا۔
۵ } مساجد میں باجماعت بہ پابندی ادائے نماز کیلئے امام و مؤذن کے تقرر کے خاطر موازنہ حکومت میں سالانہ اور بتوسط امورمذہبی ائمہ و مؤذنین کا تقرر عمل میں لایا گیا۔
۶ } شراب و سیندھی مسکرات کی دوکانیں اندرون بلدہ تھیں، انکو حدود بلدہ سے برخواست کرادیا گیا۔
۷ } رمضان المبارک کے احترام کے پیش نظر ہوٹلوں پر پردہ ڈالنے کے احکام جاری کروائے گئے۔ اور علانیہ کھانے پینے سے ممانعتی احکام کا اجرا کرایا گیا۔۸ } بزم عرس میں مینا بازار قائم کئے جاتے تھے اور مزارات اولیاء و صلحاء پر طوائف بازی مجرا ادا کیا کرتے تھے، ان تمام کو بند کروادیا گیا۔
حضرت امیر ملت رحمہ اللہ الباری نے فرمایا ہے کہ ان اصلاحات کے دیکھنے کے بعد یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شیخ الاسلام بانیٔ جامعہ نظامیہ علیہ الرحمہ ملک میں ایک مجاہداعظم اور مصلح کبیر رہے۔
۱۹؍ذوالحجۃ الحرام ۱۲۹۲ہجری کو جامعہ نظامیہ کی تاسیس (سنگ بنیاد) رکھی گئی۔ جو الحمدللہ آج تقریبا ۱۵۲ سال کی تکمیل پر بھی قائم و دائم ہے۔ (ان شاء اللہ رہے گا بھی) اس دینی ادارے سے بے حساب طالبین علوم دینیہ و حفاظ قرآن مجید اپنی اپنی فراغت کے بعد اقطاع عالم میں مصروف عمل ہیں۔
حضرت شیخ الاسلام کا وصال غرہ جمادی الثانی ۱۳۳۶؁ھ کو ہوا۔ آپ کا مزار مبارک احاطۂ جامعہ نظامیہ میں موجود ہے۔
[email protected]