شیخ حسینہ کا مستقبل

   

توبہ کو توڑدوں ترے اقرار کی طرح
میں سوچ ہی رہی تھی کہ موسم بدل گیا
بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ اپنے ملک سے فرار کے بعد اب بھی ہندوستان میں ہی موجود ہیں۔ شیخ حسینہ نے کل عوامی احتجاج اور فوج کی مداخلت کے بعد وزارت عظمی سے استعفی پیش کردیا تھا ۔ انہوں نے استعفی کے فوری بعد بنگلہ دیش چھوڑتے ہوئے ہندوستان کا رخ کیا تھا جبکہ یہ دعوی کیا جا رہا تھا کہ وہ لندن روانہ ہونگی ۔ تاہم وہ دہلی کے قریب ہنڈن ائر بیس پہونچ گئیں۔ ہندوستان کے مشیر قومی سلامتی اجیت ڈوول نے ان سے لنڈن ائر بیس پر ملاقات کی اور وزیر اعظم اور دوسروں کو تازہ ترین صورتحال سے واقف کروایا ۔ کل رات تک یہ کہا جا رہا تھا کہ شیخ حسینہ ہندوستان میں توقف کے بعد طیارہ کی دستیابی اور برطانیہ میںسیاسی پناہ کی درخواست قبول ہوتے ہی لندن کیلئے روانہ ہوجائیں گی ۔ تاہم ابھی تک اس معاملے میں کوئی پیشرفت نہیںہو پائی ہے ۔ وہ اب بھی ہندوستان میں ہی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ ‘ شیخ حسینہ کو سیاسی پناہ دینے میں پس و پیش کا شکار ہے اور ابھی تک اس نے قطعیت کے ساتھ کوئی فیصلہ نہیںکیا ہے ۔ برطانیہ نے اشارتا واضح کردیا ہے کہ اس کے قوانین اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ کوئی اس کی سرزمین پر پہونچے اور پھر سیاسی پناہ کی درخواست کرے ۔ برطانیہ انہیںقانونی کشاکش سے بچانے کے موقف میں نہیں ہوگا ۔برطانیہ کے محکمہ داخلہ کا کہنا تھا کہ کسی بھی شخص کو وہاں پناہ حاصل کرنی چاہئے جہاں وہ اپنے ملک سے فرار کے بعد سب سے پہلے پہونچا ہو۔ اس طرح شیخ حسینہ بنگلہ دیش سے فرار کے بعد ہندوستان آئیں۔ ابھی وہ یہیں ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ موجودہ غیر یقینی حالات میں وہ مزید کم از کم دو دن ہندوستان میں ہی قیام کریں گی ۔ ابھی جو حالات درپیش ہیں ان میں شیخ حسینہ کا مستقبل غیر یقینی ہی کہا جاسکتا ہے ۔ وہ برطانیہ فوری جانے کے موقف میں نہیں ہیں۔ ہندوستان میں ان کا توقف زیادہ طویل نہیں ہوسکتا ۔ حکومت ہند بھی صورتحال پر قریبی نظر رکھے ہوئے ہے اور حالات کا بغور جائزہ لے رہی ہے ۔ ایسے میں شیخ حسینہ کیلئے ان امکانات پر غور کر رہی ہیں جن کو اختیار کرتے ہوئے وہ خود کو محفوظ متصور کرسکیں ۔
یہ اطلاعات بھی گشت کر رہی ہیں کہ شیخ حسینہ امریکہ یا فن لینڈ جانے پر بھی غور کرسکتی ہیں۔ امریکہ میں ان کے فرزند موجود ہیں۔ وہ بھی بنگلہ دیش کے حالات سے باخبر ہیں اور اپنی والدہ کے مستقبل کے تعلق سے فکرمند ہیں۔ اس کے علاوہ فن لینڈ میں بھی شیخ حسینہ کے کچھ رشتہ دار ہیں ۔ وہ فن لینڈ جانے کے تعلق سے بھی غور کر رہی ہیں۔ تاہم ان کیلئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنے مستقبل کو محفوظ بنانا چاہتی ہیں۔ وہ کسی بھی طرح کی قانونی یا دوسری کشاکش کا شکار ہونی نہیں چاہتیں۔ وہ کسی ایسے ملک میں جانا چاہتی ہیں جہاں انہیں سیاسی پناہ گزین قرار دیدیا جائے تاکہ ان کی بنگلہ دیش منتقلی کے قانونی پہلو کمزور ہوجائیں۔ ان کو ملزم کے طور پر بنگلہ دیش لانے کے امکانات کم سے کم ہوجائیں ۔ بنگلہ دیش میں چونکہ پارلیمنٹ تحلیل کردی گئی ہے اور عبوری حکومت کے قیام کی سرگرمیاں چل رہی ہیں اور آئندہ چند مہینوں میں پارلیمانی انتخابات ہوسکتے ہیں۔ یہ سارے حالات شیخ حسینہ کیلئے سازگار نہیں ہیں۔ وہاں مخالف جماعتوں کی حکومت بن جائے تو پھر وہ شیخ حسینہ کے تعاقب سے گریز نہیں کریں گے ۔ جہاںکہیںبھی وہ پناہ لیں گی وہاں کی عدالتوں سے رجوع ہوتے ہوئے انہیں بنگلہ دیش واپس لانے اور ان کے خلاف مقدمات چلانے کی کوششیںضرو ر ہوسکتی ہیں۔ شیخ حسینہ کو بھی ان تمام باتوں کا خدشہ لاحق ہے اسی لئے وہ کسی بھی ملک میں جانے سے پہلے ان اندیشوں کو دور کرنا چاہیں گی تاہم اس کیلئے ان کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے ۔
ہندوستان میں جس طرح ان کی اچانک اور غیر متوقع آمد ہوئی ہے اس کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ انہیں یہاں توقف کی اجازت تو دی گئی لیکن ان کا قیام یہاں زیادہ طویل نہیں ہوسکتا ۔ ہندوستان بھی اپنے حالات اور قانونی پہلووں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے موقف کا تعین کرے گا ۔ اس طرح شیخ حسینہ کا مستقبل غیر یقینی کیفیت کا شکار ہے اور ابھی یہ کہا نہیں جاسکتا کہ وہ کہاں جائیں گی اور کس ملک میں سکونت اختیار کریں گی ۔ ان کے کسی بھی فیصلے اور اقدام پر نہ صرف بنگلہ دیش کے حکام کی بلکہ دنیا کے مختلف گوشوں کی نظریں ہیں ۔ وہ جو کوئی فیصلہ کریں گی اس سے ان کے مستقبل پر اثرات ضرور مرتب ہونگے ۔