رہے ہم بھی آخر نہ ہم چلتے چلتے
ملی آج راہِ عدم چلتے چلتے
بنگلہ دیش میں سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کو بالآخر سزائے موت کا اعلان کردیا گیا ہے ۔ بنگلہ دیش میںانٹرنیشنل ٹریبونل نے شیخ حسینہ کو انسانیت کے خلاف جرائم کی مرتکب قرار دیا اور فیصلہ سناتے ہوئے ان کیلئے سزائے موت کا اعلان کیا گیا ہے ۔ شیخ حسینہ پر الزام ہے کہ انہوں نے اقتدار پر رہتے ہوئے طلباء کے احتجاج کو کچلنے سخت ترین اقدامات کا حکم جاری کیا تھا ۔ انہوں نے طلباء پر فائرنگ کیلئے بھی احکام جاری کئے تھے جس کے نتیجہ میں کئی طلباء کی موت واقع ہوگئی تھی ۔ طلباء کے احتجاج نے انتہائی شدت اختیار کرلی تھی جس کے بعد شیخ حسینہ کو بنگلہ دیش سے فرار ہونا پڑا تھا ۔ شیخ حسینہ بنگلہ دیش چھوڑکر ہندوستان آگئیں اور یہاں انہیں پناہ دی گئی ہے ۔ یہ بھی قیاس کیا جاتا ہے کہ شیخ حسینہ کے وزیر داخلہ اسد الزماں خان بھی ہندوستان میں ہیں ہوسکتے ہیں۔ شیخ حسینہ اور اسد الزماں کو بنگلہ دیش میں مفرور مجرم قرار دیدیا گیا ہے ۔ ان کے خلاف سزاوں کا اعلان ہوچکا ہے ۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شیخ حسینہ اور ان کے حامیوں کے خلاف مزید مقدمات بھی چلائے جاسکتے ہیں اور انہیں ایک سے زائد مقدمہ میں سزاء سنائی جاسکتی ہے ۔ اس بات کے اندیشے پہلے ہی سے ظاہر کئے جا رہے تھے کہ شیخ حسینہ کے خلاف سخت ترین سزاء کا اعلان ہوسکتا ہے اور انہیں سزائے موت کا اعلان کردیا گیا ہے ۔ یہ فیصلہ بنگلہ دیش کے داخلی حالات کیلئے بھی بہت زیادہ اہمیت کا حامل کہا جا رہا ہے کیونکہ جہاں شیخ حسینہ کے مخالفین بنگلہ دیش میں ان کے خلاف مہم چلا رہے ہیں وہیں ان کی پارٹی عوامی لیگ نے اس فیصلے کو مسترد کردیا ہے اور یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ شیخ حسینہ اور ان کی پارٹی کو پوری طرح سے ختم کرنے کے مقصد سے یہ سزا سنائی گئی ہے ۔ بنگلہ دیش میں سزاء سنائے جانے کے فوری بعد وہاں کی عبوری حکومت بھی سرگرم ہوگئی ہے اور ہندوستان سے یہ اپل کردی گئی ہے کہ شیخ حسینہ کو بنگلہ دیش کے حوالے کردیا جائے تاکہ ان کو جوسزا سنائی گئی ہے اس کی تعمیل کی جاسکے اور دیگر مقدمات کی سماعت ممکن ہوسکے ۔ ہندوستان نے یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ بنگلہ دیش کے عوام کے حق میں جو کچھ بہتر ہوسکتا ہے اس میں تعاون کرے گا ۔
ہندوستان نے واضح طور پر کہا ہے کہ بنگلہ دیش کے تمام ذمہ داروں کے ساتھ بات چیت کا راستہ اختیار کیا جاسکتا ہے جو ملک میں امن اور نظم و ضبط کی بحالی کیلئے سنجہدہ ہوں اور اس کیلئے اپنی جانب سے اقدامات کریں۔ وزارت خارجہ ہند کی جانب سے یہ اشارہ نہیں دیا گیا ہے کہ شیخ حسینہ کو واقعی حوالے بھی کیا جائے گا یا نہیں۔ دونوں ملکوں کے مابین حوالگی مجرمین کا معاہدہ موجود ہے ۔ اس کے علاوہ کئی اور باہمی معاہدات موجود ہیں جن کی بنیاد پر بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے شیخ حسینہ کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے تاہم قطعی فیصلہ کا اختیار ہندوستان کو ہی حاصل ہے ۔ باہمی معاہدہ کے تحت مجرمین کو حوالے تو کیا جاسکتا ہے لیکن ان صورتوں میں نہیں کیا جاسکتا جب فیصلے سیاسی بنیادوں پر محسوس ہوں۔ جہاں تک شیخ حسینہ کا معاملہ ہے تو سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں فی الحال عبوری حکومت موجود ہے ۔ وہاں کوئی عوام کی منتخبہ حکومت نہیں ہے اور ہندوستان کسی منتخب حکومت کے ساتھ روابط کو بہتر بنانے کا خواہاں ہے ۔ جب تک ملک میں انتخابات نہیں ہوجاتے اور عوام کی منتخب کردہ حکومت نہیں بن جاتی اس وقت تک یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ بنگلہ دیش کی درخواست کو ہندوستان قبول کرے گا ۔ اس کے علاوہ یہ الزامات بھی ضرور عائد کئے جا رہے ہیں کہ شیخ حسینہ اور ان کی پارٹی عوامی لیگ کو ختم کرنے کیلئے مقدمات چلائے جا ریہ ہیں اور سزاوں کا اعلان کیا جا رہا ہے ۔ اس صورتحال میں بھی ہندوستان کی جانب سے حوالگی کے امکانات بھی کم ہوجاتے ہیں۔
جہاں تک شیخ حسینہ کا تعلق ہے تو اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ انہوں نے ملک میں 15 سالہ دور اقتدار میں انتہائی سخت گیر اقدامات کئے تھے ۔ انہوں نے بھی اپنے سیاسی مخالفین کیلئے آہنی پنجہ کا استعمال کیا تھا اور ان کے دور میں سیاسی مخالفین کو ٹھکانے لگانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی تھی ۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وقت کا پہئیہ گھوم رہا ہے اور اب نشانہ پر شیخ حسینہ دکھائی دے رہی ہیں۔ تاہم جہاں تک ہندوستان کا سوال ہے تو یہ واضح کردیا گیا ہے کہ بنگلہ دیش میں جمہوریت اور امن کی بحالی کی خواہاں طاقتوں کے ساتھ ہندوستان تعاون کرے گا اور یہی موقف جائز ‘ واجبی اور قابل قبول کہا جاسکتا ہے ۔