35 گھنٹے ٹرین میں سفر، ذاتی پیسوں سے ٹکٹ خرید کر بالآخر حیدرآباد پہنچی
حیدرآباد۔/10 مارچ، ( سیاست نیوز) ڈاکٹر بننے کی خواہش میں یوکرین گئیںشیرین تبسم روس اور یوکرین کی جنگ چھڑ جانے کے بعد 16 دن تک مشکلات سے دوچار ہونے کے بعد بالآخر 7 مارچ کو شہر واپس ہوئیں۔ ورنگل میں نعیم نگر سے تعلق رکھنے والے اے سی میکانک مومن علی احمد اور پروین سلطانہ کی شیرین تبسم اکلوتی اولاد ہے جو یوکرین کے زیروزی اسٹیٹ یونیورسٹی میں ایم بی بی ایس تھرڈ ایئر ( تیسرے سال ) میں زیر تعلیم ہے۔ یوکرین جنگ کا اعلان ہونے کے بعد پریشان شیرین تبسم کئی مسائل سے دودچار ہوگئی، یونیورسٹی کی اطلاع کے بعد دوستوں کے ساتھ ملکر 20 فروری کو یونیورسٹی سے روانہ ہوگئی ۔ زیروزنی ریلوے اسٹیشن پر ٹرین میں سوار ہوکر 35 گھنٹوں کے سفر کے بعد اُجاروڈ کو پہنچی۔ دوسری ٹرین میں سوار ہوکر چاپ کی سرحد کو پہنچی وہاں سے ہنگری کی سرحد جوہانی اور پھر وہاں سے ہنگری کے دارالحکومت میں واقع بڈا پسٹ ایرپورٹ پہنچی ۔ اس طرح 8 دن تک مصیبتوں کا سامنا کیا۔ بڈا پسٹ ایرپورٹ کے حکام نے انہیں بتایا کہ انہیں ہندوستانی سفارتخانہ سے کسی قسم کی کوئی اطلاع وصول نہیں ہوئی اور سبھی نے مدد کرنے سے انکار کردیا۔ وہاں موجود ہندوستانیوں نے انہیں پناہ دی اور کھانے پینے کا انتظام کیا اور یہ سہارا بھی صرف ایک ہی دن کیلئے تھا۔ دوستوں کے ساتھ بوڈا پسیٹ ایرپورٹ کے عہدیداروں سے منت سماجت کرتے ہوئے 5 مارچ کو انڈین فلائیٹ میں سوار ہوکر 7 مارچ کو صبح دہلی پہنچے ، وہاں سے اسی روز رات میں حیدرآباد پہنچے۔ فی الحال بالا نگر اور دلسکھ نگر میں اپنے رشتہ داروں کے ساتھ ہیں۔ شیرین تبسم نے کہا کہ 16 دن کافی تکلیف دہ تھے، کھانے کو کھانا نہیں، پینے کیلئے پانی تک میسر نہیں ہوا۔ ہر طرف بمباری، جنگی ٹینکرس کی ہلچل دکھائی دے رہی تھی۔ دوستوں کے ساتھ ملکر بنکرس میں زندگی اور موت کی کشمکش کے درمیان گذارے ہیں۔ بالآخر ایر پورٹ پہنچے اور وہاں ہندوستانیوں کی جانب سے دیا گیا کھانا کھایا۔ 5 مارچ کو اپنے ذاتی پیسوں سے ٹکٹ خرید کر ہندوستان پہنچے۔ شیرین تبسم نے مرکزی حکومت اور تلنگانہ حکومت سے خواہش کی کہ ہمارے تعلیمی سال کو ضائع نہ ہونے دیں اور ہم سارے طلبہ کیلئے راحت فراہم کرے۔ ن