نظیر سہروردی
سیمینار
غم و رنج عاشقانہ نہیں کیلکولیٹرانہ
اسے میں شمار کرتا جو نہ بے شمار ہوتا
وہاں زیربحث آتے خد و خال و خوئے خوباں
غمِ عشق پر جو نظیرؔ کوئی سیمینار ہوتا
…………………………
صبا میر
بیگم دل ربا کا دسترخوان
ادھ پکی کھچڑی رکھی ہے شوق فرمائیں گے کیا
توبہ خالی پیٹ ہی دفتر چلے جائیں گے کیا
دودھ میں مکھی تھی چوہا تو نہیں تھا اے حضور
ہاتھ دھوکر اب آپ پیچھے ہی پڑ جائیں گے کیا
نیم کے پتوں کی چٹنی توس پر کیا مل کے دوں
اگر یہ کھاتے نہیں تو آپ پھر کھائیں گے کیا
زیب دسترخوان ہیں تھوڑے کریلے کے کباب
ان پر اب کونین بھی تھوڑی چھڑکوائیں گے کیا
پیاز کا حلوہ بنادوں ! اے زرا رک جائیے
بھوکے رہ کے آپ میری ناک کٹوائیں گے کیا
مرسلہ : عبدالوحید خان ۔ مرادنگر
…………………………
ابھی زندہ ہوں…!!
٭ بیگم جب کافی دیر تک باتھ رُوم سے باہر نہیں آئیں تو ابتداء میں میاں کو پریشانی لاحق ہُوئی ، پھر سری دیوی کے حادثہ کو یاد کرکے ایک گونا گوں خوشی محسوس کرتے ہوئے اُس نے باتھ رُوم کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
اندر سے بیگم کی گرجدار آواز آئی ’’خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے تمہاری سِری دیوی ابھی زندہ ہے…!!‘‘
محمد عبدالسلام ۔ ٹولی چوکی
…………………………
’وطن‘ کی بہنیں …!
٭ اخبار ’وطن‘ کے ایڈیٹر مولوی انشاء اللہ خان کے علامہ اقبال سے دوستانہ تعلقات تھے، اور وہ علامہ کی اس دور کی قیامگاہ واقع انار کلی بازار لاہور اکثر حاضر ہوا کرتے تھے، اس دور میں انارکلی بازار میں گانے والیاں آباد تھیں۔ انہی دنوں میونسپل کمیٹی نے گانے والیوں کو انارکلی سے نکال کر دوسری جگہ منتقل کر دیا۔ان ایام میں جب بھی مولوی صاحب، علامہ سے ملاقات کے لئے آئے، اتفاقاً ہر بار یہی پتہ چلا کہ علامہ گھر پر تشریف نہیں رکھتے، باہر گئے ہوئے ہیں۔
ایک روز مولوی انشاء اللہ پہنچے تو علامہ گھر پر موجود تھے، مولوی صاحب نے ازراہِ مذاق کہا: ’’ڈاکٹر صاحب جب سے گانے والیاں انارکلی سے دوسری جگہ منتقل ہوئی ہیں، آپ کا دل بھی اپنے گھر میں نہیں لگتا۔‘‘
علامہ نے فوراً جواب دیا: ’’مولوی صاحب، آخر ان کا کیوں نہ خیال کیا جائے، وہ بھی تو ’’وطن‘‘ کی بہنیں ہیں۔‘‘
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
جی نہیں !
٭ سینما ہال کے باہر کھڑی ایک تنہا خوبصورت عورت اپنے شوہر کا انتظار کررہی تھی۔
ایک منچلے کی رگ ظرافت پھڑکی اور وہ جلدی سے لپک کر اُس عورت کے پاس گیااور بولا ’’لگتا ہے آپ اکیلی ہیں ؟ ‘‘
جلدی سے اُس عورت نے جواب دیا ۔’’جی نہیں ! آپ کے بہنوئی بھی ساتھ ہیں !!‘‘
محمد منیرالدین الیاس ۔ مہدی پٹنم
…………………………
معصومیت!
پرنسپل : ( تمام بچوں سے ) دُعا مانگو کہ ہمارے ملک کے تمام مریض جلد از جلد صحت یاب ہوجائیں ۔ ایک بچہ دعا نہیں مانگ رہا تھا اور بالکل خاموش کھڑا تھا ۔
پرنسپل : بیٹا ! تم دُعا کیوں نہیں مانگ رہے ہو؟
بچے نے معصومیت سے جواب دیا :
’’میرے ابو ڈاکٹر ہیں …!!‘‘
سید حسین جرنلسٹ ۔ دیورکنڈہ
…………………………
دو اور دو پانچ
٭ ایک استاد نے بچے سے پوچھا’’اگر میں تمہیں دو خرگوش دوں اور پھر دو خرگوش اور دوں تو تمہارے پاس کتنے خرگوش ہو جائیں گئے؟‘‘۔’’پانچ‘‘بچے نے جواب دیا۔
’’نہیں‘‘ غور سے سنو اگر میں تمہیں دو سیب دوں اور پھر دو سیب اور دوں تو پھر کتنے سیب ہو جائیں گئے۔۔؟ ’’چار‘‘
’’اب بتاؤ اگر میں تمہیں دو خرگوش دوں اور پھر دو خرگوش اور دوں تو تمہارے پاس کتنے خرگوش ہو جائیں گئے؟۔ ’’پانچ‘‘
“بھلا وہ کیسے استاد نے زچ ہو کر پوچھا۔
’’اس لئے کہ میرے پاس ایک خرگوش پہلے سے ہے۔’’بچے نے کہا‘‘
حبیب حمزہ بن احمد العطاس ۔ گرمٹکال
……………………………