شیشہ و تیشہ

   

تجمل اظہرؔ
دادا گیری …!!
ہم اپنے دور کی وہ شاعری بھی دیکھی ہے
کہیں پہ کم تو کہیں برتری بھی دیکھی ہے
مگر یہ کیا کہ فقط اپنے نام کی خاطر
ادب کے نام پر دادا گیری بھی دیکھی ہے
…………………………
قاضی ضیاءؔ عالم کوسگوی
غم … !!
اس دل کا حسینوں پر مرنا ہی نہیں جاتا
دُنیا سے محبت کا کرنا ہی نہیں جاتا
لے جلد خبر میری دم آیا ہے ہونٹوں پر
غم تیری محبت کا کھا یا ہی نہیں جاتا
…………………………
فرید سحرؔ
بندر بہت …!!
گُفتگو جو بھی کرتے ہیں چلر بہت
خاندانی وہ ہوتے ہیں لوفر بہت
سارے دفتر پہ ہے دھاک اُس کی مگر
گھر میں بیوی سے ڈرتا ہے افسر بہت
اب کروڑوں میں رہ کر بھی کمزور ہیں
تھے ہزاروں پہ بھاری بہتر بہت
اہلیہ کو نہ چاہوں میں کیوں ٹوٹ کر
کام آتے ہیں اُس کے جو زیور بہت
مُنہ سے بد بُو بہت آ رہی ہے مرے
میں لطیفے جو کہتا ہوں ولگر بہت
جب بھی ہوتی ہے اُن سے مری کرکری
تب نوالوں میں آتے ہیں کنکر بہت
بن کے نادان سب کو گُھماتا ہوں میں
میرے جیسے یہاں ہیں گدا گر بہت
فکر جنتا کی اُن کو نہیں کُچھ بھی اب
خود غرض ہیں ہمارے یہ لیڈر بہت
میں تو کھاتا ہوں گھر میں بہت کم مگر
اور کھاتا ہوں دعوت میں ڈٹ کر بہت
غرق کر دیں گے بیڑہ یہ اک دن سحرؔ
ہیں حُکومت میں شامل جو بندر بہت
گھر سے برکت ہی میرے سحرؔ اُڑ گئی
گالیاں میں جو دیتا ہوں فر فر بہت
…………………………
آؤٹ آف کنٹرول …!!
٭ دعوتوں میں بہت زیادہ کھانا بھرلینے سے احتیاط کریں کیونکہ جن کی داخلہ پالیسی کنٹرول میں نہیں رہتی اُن کی خارجہ پالیسی آؤٹ آف کنٹرول ہوجاتی ہے …!!
مظہر قادری ۔ حیدرآباد
…………………………
بدتمیز …!!
باپ : بیٹا میرے لئے ایک گلاس پانی لانا ۔
بیٹا : سوری ابو ! میں گیم کھیل رہا ہوں ، میں نہیں لاسکتا ۔
دوسرا بیٹا : ابو یہ تو ہے ہی بدتمیز ! جائیں آپ خود جاکے پی لیں ۔
صنوبر ثریا ۔ جوگی پیٹ
…………………………
بہت عمدہ …!؟
٭ عارف ( آصف سے ) تم نے آج پرچہ کیسا دیا ہے ؟
آصف : یار پرچہ تو بڑا عمدہ ہوا ہے مگر چھ سوالوں میں سے دو سوال حل کرنے رہ گئے اور دو کئے جو غلط ہوگئے اور دو تو یار مجھ کو آتے ہیں نہیں تھے …!!
خورشید جہاں بیگم ۔ عادل آباد
…………………………
قسمت نہیں کھلتی …!!
کنوارہ : تقدیر ہے مگر قسمت نہیں کھلتی ، تاج محل بنانا چاہتا ہوں مگر ممتاز نہیں ملتی ۔
عاشق : تقدیر ہے مگر قسمت نہیں کھلتی ۔ ممتاز مل گئی ہے مگر شادی نہیں کرتی ۔
شادی شدہ : تقدیر ہے مگر قسمت نہیں کھلتی تاج محل بنانا چاہتا ہوں مگر ممتاز نہیں مرتی !
محمد اختر عبدالجلیل ۔ محبوب نگر
…………………………
کرایہ مکان
٭ کرایہ دار نے نصف شب کو مالک مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ مالک مکان نیند سے بیدار ہوکر جلدی سے دروازے پر آیا تو کرایہ دار بولا ’’میں اس مہینے کا کرایہ ادا نہیں کرسکو ںگا ‘‘
’’مگر یہ اطلاع دینے کا کونسا وقت ہے ؟‘‘ مالک مکان غصہ سے بولا
’’تم یہ بات مجھے صبح بتاسکتے تھے ‘‘۔
وہ تو ٹھیک ہے مگر میں نے سوچا اس پریشانی میں اکیلا کیوں جاگتا رہوں‘‘۔
سید حسین جرنلسٹ ۔ دیورکنڈہ
…………………………