شیشہ و تیشہ

   

تجمل اظہرؔ
توبہ توبہ …!!
شاعری میں بھی غبن توبہ توبہ
پھر بھی ہے اتنا جتن توبہ توبہ
میں انگوٹھا چھاپ ہی ٹہرا نگر
آپ استادِ سُخن توبہ توبہ
…………………………
قاضی ضیاءؔ عالم کوسگوی
رنج … !!
رُسوا ہوئے ہیں عشق رُخِ زلفِ یار میں
ہم آگئے ہیں گردشِ لیل و نہار میں
تھا سامنا اجل کا شب انتظار میں
تا حشر اس کا رنج رہے گا مزار میں
…………………………
انعام الحق جاوید
ہو نہیں سکتی …!!
محبت اس قدر بھی غیر ارادی ہو نہیں سکتی
کہ ہو اس شخص سے جس سے کہ شادی ہو نہیں سکتی
کئی اک بیٹیاں ہوں اور کوئی بیٹا نہ ہو جس کا
وہ نانی بن تو سکتی ہے، وہ دادی ہو نہیں سکتی
وہ اک سرکاری افسر جس کی گھر والی ہو استانی
کبھی بھی اس کی رائے انفرادی ہو نہیں سکتی
اُصولی بات ہے بے شک تم اس کا تجربہ کر لو
نہ کھاتا ہو جو رشوت اس کو بادی ہو نہیں سکتی
نہیں معلوم باورچی کہاں سے تم نے منگوایا
وگرنہ دال اتنی بے سوادی ہو نہیں سکتی
……………………………
پیار سے …!!
٭ بیوی پیار سے میاں سے کہتی ہے : ’’میاں جی ! ذرا میری بات سنئے ۔
شوہر اپنی ڈائری کھولنے لگا ۔
بیوی : کیا دیکھ رہے ہو …؟
شوہر : دیکھ رہا ہوں جب آخری بار تم نے ایسے بلایا تھا کتنا خرچہ ہوا تھا …!!
محمد اختر عبدالجلیل ۔ محبوب نگر
…………………………
گیا وقت …!!
٭ ماسٹر صاحب کلاس میں داخل ہوتے ہوئے کہنے لگے ۔ دیکھو بچو : ’’گیا وقت وقت پھر ہاتھ آتا نہیں ‘‘ ۔
شاگردوں میں سے ایک شاگرد نے کہا : ’’مگر ماسٹر صاحب ! اسکول آنے کا وقت تو ہر روز 9 بجے آتا ہے …!!‘‘ ۔
خورشید جہاں بیگم ۔ عادل آباد
…………………………
یادِ ماضی…!
٭ ایک صبح ٹیچر کلاس روم میں کیمرہ لے آئی اور بچوں کو بتایا کہ ہم آپ کی یادگار اجتماعی تصویریں بنائیں گے تاکہ جب آپ بڑے ہوجاؤ تو یاد کرو کہ…!
یہ کاشفی ہے… اب یہ انجینئر ہے۔
اور یہ مریم ہے… اب یہ پڑھائی مکمل کرچکی ہے اور شادی کی تیاریاں کررہی ہے۔
یہ نعیم ہے… اور یہ ابھی تک کنوارہ ہے۔
یہ عبدالجبار ہے… یہ ترقی کرکے منتظم اعلی بن گیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
اتنے میں پچھلے بنچوں سے ایک بچے کی آواز آئی، اور یہ ہماری ٹیچر ہے، جواب اس دنیا میں نہیں رہی ۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
معلومات میں اضافہ …!
بیٹے نے باپ سے پوچھا ’’ابا جان رافل ٹاور کہاں ہے ؟ ‘‘ ’’معلوم نہیں ‘‘
بیٹا : ’’دنیا کے کل کتنے عجائبات ہیں ؟‘‘
باپ : مجھے کیا معلوم !!
بیٹا یہ سن کر خاموش ہوگیا تو باپ کہنے لگا … ہاں ہاں بیٹا پوچھو اور پوچھو ۔ اگر پوچھو گے نہیں تو تمہاری معلومات میں اضافہ کیسے ہوگا!!
سید حسین جرنلسٹ ۔ دیورکنڈہ
………………………
ہمت والا !!
٭ تین دوست اس بات پر بحث کررہے تھے کہ وہ پیسے کی ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں کرتے پیسے کو ہاتھ کا میل سمجھتے ہیں ۔ اس بات کو ثابت کرنے کیلئے ان میں سے ایک نے جیب سے سو روپئے کا نوٹ نکالا اور ماچس جلاکر اسے راکھ کردیا۔
دوسرا دوست یہ دیکھ کر ہنسا اور سو سو کے دو نوٹ نکال کر اسے آگ کی نذر کردیا۔
تیسرے دوست نے بڑے زور کا قہقہہ لگایا اور بولا بس اتنی ہی ہمت تھی لو مجھے دیکھو جیب سے چیک بک نکالی چیک پر 10 ہزار کی رقم لکھی اور دستخط کرکے چیک کو جلادیا۔
ایم اے وحید رومانی ۔ نظام آباد
…………………………