شیشہ و تیشہ

   

نسیم ٹیکمگڑھی
زمانے سے آگے …!
آگے نکل گئیں ہیں زمانے سے عورتیں
کب تک رہیں گی مرد سے ایسے وہ ہارکر
برقع پہن کے مرد ہی نکلا کریں گے اب
آزاد عورتیں ہوئیں کپڑے اُتارکر
…………………………
جمیل ارشدؔ
ڈائبیٹک غزل… !!
ہے خون میں شکر مرے پیشاب میں شکر
جیسے نفوذ کر گئی اعصاب میں شکر
جاگے تو مضمحل تھے ہمارے سبھی قویٰ
کھائی تھی ہم نے رات بہت خواب میں شکر
ملتے ہیں ہم کو تحفے کریلوں کے اور ہم
تقسیم کرتے رہتے ہیں احباب میں شکر
نمکین دیکھنے میں ہے پر اس نے کھیل کر
پانی سے، گھول دی مرے تالاب میں شکر
مشکل نہ اتنا ہوتا پھر اس کو سنبھالنا
ہوتی اگر ملی ہوئی سیماب میں شکر
نمکین ہم کو بھاتا ہے،کیسے نباہ ہو؟
جبکہ ہے اس کے چہرۂ شاداب میں شکر
چھوتے بھی ہم اسے نہیں بس دیکھتے ہی ہیں
جیسے ہے اس حسین سے مہتاب میں شکر
وہ بھوک سے مرا ہے پر اُس کے طبیب نے
لکھا ہے اُس کی موت کے اسباب میں شکر
ارشدؔ بدل تو سکتی نہیں اُس کی خاصیت
کتنی بھی چاہے گھول دو تیزاب میں شکر
…………………………
سلوگن کی دنیا…!!
٭ کل حجام کی دوکان پر ایک سلوگن پڑھا…….!
’’ہم دِل کا بوجھ تو نہیں لیکن سر کا بوجھ ضرور ہلکا کر سکتے ہیں…!!‘‘
٭ لائٹ کی دوکان والے نے بورڈ کے نیچے لکھوایا…!
’’ آپ کے دِماغ کی بتی بھلے ہی جلے یا نہ جلے، مگر ہمارا بلب ضرور جلے گا…!!‘‘
٭ چائے والے نے اپنے کاؤنٹر پر لکھوایا..!
’’میں بھلے ہی عام ہوں مگر چائے اسپیشل بناتا ہوں…!!‘‘
٭ ایک ریسٹورینٹ نے سب سے الگ فقرہ لکھوایا……!
’’یہاں گھر جیسا کھانا نہیں ملتا، آپ اطمینان سے تشریف لائیں…!!‘‘
٭ الیکٹرانک دوکان پر سلوگن پڑھا تو میں دم بہ خود رہ گیا…!
’’اگر آپ کا کوئی ’فیان‘ نہیں ہے تو یہاں سے لے جائیں…!!‘‘
عبدالرحمن بن عیدروس ۔ محبوب نگر
…………………………
اعتراض …!!
٭ شادی سے پہلے قاضی صاحب نے احتیاطاً اعلان کیا… : ’’کسی صاحب کو اس شادی پر اعتراض ہو تو وہ بتا سکتے ہیں…!‘‘
ایک سہمی سی آواز آئی: ’’جی مجھے ہے …!‘‘
قاضی صاحب نے ڈانٹا: ’’تم خاموش رہو بدتمیز ، تم دولہا ہو…!!‘‘
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
اظہار ہمدردی !!
٭ ایک خاتون اپنی پڑوسن سے کہہ رہی تھیں … ’’ اتنی دیر ہوگئی ، منے کے ابا واپس نہیں آئے … ہوسکتا ہے کہ آج وہ پھر شراب خانے چلے گئے ہوں ‘‘۔
’’اے ہے ! تم ہر بات کا برا پہلو ہی کیوں سوچتی ہو ؟ پڑوسن نے کہا ’’ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ کسی بس کے نیچے آگئے ہوں‘‘۔
محمد رشید ۔ نصیب نگر ، پھول باغ
…………………………
ابھی تو مجھے !!
٭ نوکر نے کنجوس مالک سے کہا
صاحب موچی کہہ رہا تھا کہ جوتے کی مرمت کے پیسے ابھی تک نہیں ملے !
مالک نے کہا اس سے کہہ دینا کہ باری آنے پر مل جائیں گے ۔ ابھی تو مجھے جوتے کے دام بھی ادا کرنے ہیں‘‘۔
ایم اے وحید رومانی۔ نظام آباد
…………………………
حوالات
استادنے شاگرد سے دریافت کیا : حوالات کسے کہتے ہیں ؟
شاگرد : جہاں ہوا اور لات کھانے کو ملتی ہے اس کو حوالات کہتے ہیں ۔
سیدہ ریشماں کوثر ۔ دیورکنڈہ
…………………………