شیشہ و تیشہ

   

یاور علی محورؔ
گاڑی چلارہے ہیں…!
جان لیوا حادثوں کو آسان سمجھ سمجھ کر
چالاک خود کو سب کو ناداں سمجھ سمجھ کر
اپنی نہ دوسروں کی پرواہ ذرا سڑک پر
گاڑی چلارہے ہیں میداںسمجھ سمجھ کر
………………………
لیڈرؔ نرملی
غزل (مزاحیہ )
کون چکھّے گا محبت کا مزا میرے بعد
دانت تُڑوائے گا کون اپنے بھلا میرے بعد
ناشہ Light ہے دس روٹیاں بارہ انڈے
کافی ہوگی کسے اتنی سی غذا میرے بعد
مرض کیا چیز ، مریضوں کو مٹادیتا ہوں
خواب ہوجائے گی پیشنٹو! شفا میرے بعد
ہے نئی نسل تو شیدائی فریج واٹر کی
اَوْندھا پڑجائے گا مٹی کا گھڑا میرے بعد
زندہ تھی دَم سے مرے حیدرآبادی تہذیب
ہوگا کھچڑی کی جگہ اٹلی وڈا میرے بعد
وہ مرے واسطے آتے ہوئے توشہ لائے
دوستو! جس کو بھی آئے گی قضاء میرے بعد
ڈائیٹ کنٹرول پہ رکھا تھا میں اُس لونڈے کو
سالا کھا کھاکے مرا پھول گیا میرے بعد
روزہ اک روزہ رکھائی کا رکھا، پھر نہ رکھا
کون رکھے گا میرے روزے قضاء میرے بعد
گندے انڈوں سے تواضع ہے مری جلسوں میں
کس پہ برسے گی اے لیڈرؔ یہ گھٹا میرے بعد
…………………………
کوئی اعتراض …!!
٭ نکاح سے کچھ دیرپہلے اسٹیج پر کھڑے قاضی صاحب نے باآواز بلند کہا…اگر کسی کو اس شادی پر کوئی اعتراض ہے تو اب بھی وقت ہے، ابھی بتا دے،جس کو جو بھی کہنا ہے آ کر کہہ دے…!
تبھی بھیڑ میں پیچھے کھڑی ایک خوبصورت لڑکی اپنی گود میں بچے کو لے کر آگے آ گئی۔
یہ دیکھتے ہی اسٹیج پر کھڑی دلہن نے دلہا کو تھپڑرسید کردیا…!!!
دلہن کے والد ہتھیار اُٹھانے بھاگے…!!
دلہن کی ماں بیہوش ہو گئی…!!
سالیاں دولہے کو کوسنے لگیں اور سالے آستینیں چڑھانے لگے…!!!
ایک افراتفری مچ گئی…!!
تب قاضی نے لڑکی سے پوچھا…
’’آپ کا مسئلہ کیا ہے…؟‘‘
لڑکی نے جواب دیا… ’’جی، وہ پیچھے ٹھیک سے سنائی نہیں دے رہا تھا، اس لئے میں آگے آئی ہوں…!!‘‘۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
کونسی بک …!!
٭ بک شاپ پر کھڑی ایک خوبصورت خاتون سے شاپ کے مالک نے سروے کے لیے سوال کیا: ’’ کیا آپ بتانا چاہیں گی وہ کونسی بک ہے جس نے زندگی کے ہر میدان میں آپ کی مدد کی…؟‘‘
خاتون: ’’میرے شوہر کی چیک بک …!‘‘
محمد امتیاز علی نصرتؔ۔ پداپلی
…………………………
ابھی کچن میں ہے …!!
٭ بیوی نے نئی سم لی اور سوچا کہ شوہر کو سرپرائز دوں بیوی کچن میں گئی اور شوہر کو کال کی…ہیلو ڈارلنگ…!!
شوہر نے ہلکی آواز میں جواب دیا: تم بعد میں کال کرنا ابھی کمینی کچن میں ہے۔
منہاج الحسن ۔ ہاشم آباد
…………………………
کیوں بھیجتے ہیں؟
بچہ ماں سے : ’’امی ! آپ مجھے اسکول کیوں بھیجتے ہیں ‘‘۔
ماں : ’’تاکہ تم انسان بن جاؤ‘‘
بیٹا : ’’ تو پھر آپ کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی ‘‘۔ ماں : ’’وہ کیوں ؟ ‘‘
بچہ : ’’کیوں کہ ماسٹر صاحب مجھے روزانہ مرغا بناتے ہیں‘‘۔
اکمل نواب خیردی ۔ گلبرگہ
…………………………
پہلے کے وعدے…!
٭ شادی سے پہلے کی باتیں یاد دلاتے ہوئے بیوی نے شوہر سے کہا ، پہلے تو آپ چاند ستارے توڑ لانے کی بات کرتے تھے ۔ لیکن اب پھول توڑ لانے میں بہانے بناتے ہو ۔
شوہر نے کہا ، اری پگلی کیا چناؤ سے پہلے کے وعدے کہیں بعد میں پورے ہوتے ہیں۔
بابو اکیلاؔ۔ جہانگیر واڑہ ، کوہیر
…………………………