انور مسعود
بُوفے
توانائی ہے اور پھرتی ہے جس کے دست و بازو میں
پلیٹ اُس کی ہے، چمچہ اُس کا ہے، ڈونگا اُسی کا ہے
یہ بُوفے ہے یہاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو خود بڑھ کر اُٹھا لے ہاتھ میں مُرغا اُسی کا ہے
…………………………
طالب خوندمیری
مزاحیہ غزل
گھر میں کبھی جو مالِ غنیمت اُتاریئے
سب سے بچا کے آنکھ بہ عجلت اُتاریئے
دستر پہ مُرغ و ماہی زیادہ سہی ، مگر
اپنے شکم میں حسب ضرورت اُتاریئے
آئینہ جانتا ہے حقیقت حضور کی
میک اپ کے بعد اپنی نظر مت اُتاریئے
شاید مری گھڑی ہے ، کلائی پہ آپ کی
ہوگی ذرا سی آپ کو زحمت، اُتاریئے
جتنے ستم ہیں آپ کے ، وہ سب کے سب معاف
اب مسکرا بھی دیجئے ، خفت اُتاریئے
دل میں وفورِ جذبۂ خدمت بجا، مگر
سر سے کلاہِ خبط قیادت اُتاریئے
باتیں اگر ضمیر کی سننے کا شوق ہے
کانوں سے اپنے ثقلِ سماعت اُتاریئے
اس دورِ تند و تلخ میں اپنے کلام سے
طالبؔ دلوں میں شہدِ ظرافت اُتاریئے
…………………………
خاموشی
٭ ایک شخص کو مکان کرائے پر چاہئے تھا۔ اُسے ایک مکان پسند آگیا اور مالک مکان سے بات کی ۔
مالک مکان نے کہا تمہارے پاس کوئی شور کرنے والی چیز جیسے ٹیپ ، ٹی وی ، بچے وغیرہ تو نہیں ہیں۔
وہ بیچارا شاعر تھا اُس نے کہا نہیں جناب ! ایسا کچھ بھی نہیں ، لیکن ہاں ! جب میں لکھتا ہوں تو رات کی خاموشی میں میرے قلم کے کاغذ پر چلنے سے ہلکی ہلکی سی آواز آتی ہے۔مالک مکان نے کہا بس پھر وہ قلم چھوڑ کر آنا ہے تو آ جاؤ۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
ٹھیک ہے جناب !
٭ ایک الیکشن میں امیدوار تقریر کرنے کے بعد خاموش ہوا تو کسی نے زوردار آواز میں کہا ’’تم جھوٹے اور بے ایمان ہو ، میں تمہارے مقابلے میں شیطان کو ووٹ دینا پسند کروں گا ‘‘۔
امیدوار نے مسکراتے ہوئے کہا : ’’ٹھیک ہے جناب ! اگر آپ کا دوست الیکشن میں کھڑا نہ ہو ا تو پھر آپ مجھے ووٹ دیجئے !‘‘۔
سید حسین جرنلسٹ ۔ دیورکنڈہ
…………………………
غصہ کا سبب !
٭ ایک صاحب اکثر دیر سے گھر آتے جس کی وجہ سے ان کی بیگم ان کو خوب ڈانٹتیں ۔ بیگم کے سامنے تو صاحب کا بس نہیں چلتا تھا ۔ دفتر آکر اپنے ماتحتوں پر خوب غصہ نکالتے ۔ اسی طرح وقت گزرتا رہا۔ ایک دن ان صاحب کے ایک خاص دوست جو خاصے بے تکلف تھے انھوں نے ان سے پوچھا : بتاؤ یار ! کیا حال ہے ؟
’’ٹھیک ہوں‘‘
کہو! زندگی کیسی گزر رہی ہے ؟
’’بس ڈانٹ ڈپٹ کے سہارے گزر رہی ہے ‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’مطلب واضح ہے ، جب گھر جاتا ہوں تو بیگم ڈانٹ دیتی ہیں اور پھر میں بھی ڈپٹ دیتا ہوں ‘‘۔ ’’اپنی بیگم کو …؟ ‘‘
’’ارے کہاں یار ! ہماری ایسی قسمت کہاں ہم تو اپنا سارا غصہ اپنے ماتحتوں کو ڈپٹ کر نکال لیتے ہیں…!‘‘۔
مبشر سید ۔ چنچلگوڑہ
…………………………
کونسا پریس !
٭ ٹیچر نے کتاب کا آخری سبق پڑھاتے ہوئے کہا : دیکھو بچو ! بار بار بند کی وجہ سے تمہیں پڑھنے کا ٹائم ہی نہیں ملا … امتحان میں بہت ہی کم وقت رہ گیا ہے ، خوب محنت کرو اور اب تو تمہارے پرچے بھی پریس میں چھپنے چلے گئے ہوں گے ، اگر اب بھی مجھ سے کوئی سوال پوچھنا چاہتے ہو تو فوراً پوچھ لو ؟
یہ سنتے ہی ایک بچے نے بڑی معصومیت سے پوچھا ’’ہمارے پرچے کونسے پریس میں چھپ رہے ہیں ‘‘
ٹیچر نے جواب دیا : تلنگانہ پریس میں !
رشید شوق ۔ بانسواڑہ
…………………………