پاپولر میرٹھی
کچھ پتہ نہیں
نفرت کا سلسلہ تھا مجھے کچھ پتا نہیں
کس بات کا گلہ تھا مجھے کچھ پتا نہیں
اتنا تو یاد ہے تیرے ڈیڈی ملے تھے کل
ڈنڈا کہاں پڑا تھا مجھے کچھ پتہ نہیں
…………………………
فرید سحرؔ
غزل (طنز و مزاح)
جب سے آزادی ملی ہے دوستو
ہر طرف داداگری ہے دوستو
جس کی لاٹھی ہے اُس کی بھینس اب
ورنہ گھر میں مفلسی ہے دوستو
روز اُن کی سنتے ہیں ہم جھڑکیاں
یہ بھی کوئی زندگی ہے دوستو
کرکے شادی ہم بہت خوش تھے مگر
چار دن کی چاندنی ہے دوستو
حال نیتاؤں کا کچھ نہ پوچھئے
اُن کو بس اپنی پڑی ہے دوستو
چور ، ڈاکو رہتے تھے پہلے کبھی
جیل میں اب منتری ہے دوستو
سرخرو ہیں دیش کے نیتا بہت
دار پر جنتا چڑھی ہے دوستو
دوست اب سچا کوئی ملتا نہیں
جس کو دیکھو مطلبی ہے دوستو
ہے کہاں محفوظ عورت بھی یہاں
اس کی عزت پر بنی ہے دوستو
بم دھماکے ملک میں جب بھی ہوئے
بجلی ہم پر ہی گری ہے دوستو
خون ہم نے بھی دیا اس دیش کو
پھر بھی ہم سے دشمنی ہے دوستو
داد کیوں کھل کر مجھے دیتے نہیں
کیا غزل یہ پُھسپُھسی ہے دوستو
شک وہی کرتے ہیں ہم پر اے سحرؔ
جن کے دل میں گندگی ہے دوستو
…………………………
اتنا فرق !
ایک آدمی ( ایک طالب علم سے ) : میاں ! کل تم تیز تیز جارہے تھے آج کیوں سست سست ( آہستہ ) جارہے ہو ؟
لڑکا : جناب کل میں اسکول سے آرہا تھا اور آج جارہا ہوں ۔
فیصل فریال شفاء ۔ محبوب نگر
…………………………
کیا جلدی تھی …!
٭ قبرستان میں ایک صاحب ایک قبر پر پہنچے اور قبر سے لپٹ کر دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کردیا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ یہ جملہ کہتے جاتے:’’تمھیں مرنے کی کیا جلدی تھی… تمھیں مرنے کی کیا جلدی تھی… تمھیں مرنے کی کیا جلدی تھی‘‘۔
انکی آہ و بکا سن کر دیگر لوگ متوجہ ہوگئے اور انکے غم میں شریک ہونے کے لئے ان کے قریب پہنچے۔وہ صاحب ابھی بھی قبر کی مٹی اُٹھا کر آنکھوں سے لگاتے۔ اپنے سر میں ڈالتے۔ سر پیٹتے اور روتے چلاّتے یہی کہتے جاتے۔
’’تمھیں مرنے کی کیا جلدی تھی … تمھیں مرنے کی کیا جلدی تھی… تمھیں مرنے کی کیا جلدی تھی…‘‘
لوگوں نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا:
’’ دیکھیے جناب۔ مرنے والوں کا سب کو دکھ ہوتاہے۔ لیکن یہ آخر کون ہے جس کے غم میں آپ یوں نڈھال ہوئے جارہے ہیں؟
آپ کے بیٹے، والد، بہن بھائی یا … کوئی اور…؟؟؟‘‘
ان صاحب نے ہچکیوں کے درمیاں لوگوں کو بتایا: ’’یہ میری بیوی کے پہلے شوہر کی قبر ہے ‘‘
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
یقین کیجئے
٭ ایک دوا فروش فٹ پاتھ پر اپنی دوا کی تعریف میں زمین آسمان ایک کرتے ہوئے کہہ رہا تھا ’’حضرات ! یہ دوا میں 20 سال سے فروخت کررہا ہوں لیکن آپ لوگ یقین کیجئے کہ آج تک کسی نے اس کی شکایت نہیں کی ‘‘۔
’’جی ہاں ! کیونکہ مرنے والے شکایت نہیں کرتے! ‘‘ ہجوم میں سے ایک آواز آئی ۔
سید حسین جرنلسٹ ۔ دیورکنڈہ
………………………
دیری کی وجہ !
٭ ایک بچہ دوڑا دوڑا پولیس اسٹیشن آیا اور بولا : انسپکٹر صاحب ! جلدی چلئے ایک چور ایک گھنٹے سے میرے والد کو پیٹ رہا ہے ۔
انسپکٹر بولا : ایک گھنٹے سے پیٹ رہا ہے تو تم اتنی دیر تک کیا تماشہ دیکھ رہے تھے ؟
بچہ بولا : نہیں ! نہیں صاحب ! اس سے پہلے میرے والد صاحب چور کو پیٹ رہے تھے ۔
جلیس محمد رباب ۔ ٹولی چوکی
…………………………