شیشہ و تیشہ

   

انور مسعود
قوم کے خادم
مریض کتنے تڑپتے ہیں ایمبولینسوں میں
ان کا حال ہے ایسا کہ مرنے والے ہیں
مگر پولیس نے ٹریفک کو روک رکھا ہے
یہاں سے قوم کے خادم گزرنے والے ہیں
…………………………
دلاور فگار
مزاحیہ غزل
جادۂ فن میں بڑے سخت مقام آتے ہیں
مر کے رہ جاتا ہے فنکار امر ہونے تک
کتنے غالب تھے جو پیدا ہوئے اور مر بھی گئے
قدر دانوں کو تخلص کی خبر ہونے تک
کتنے اقبالؔ رہِ فکر میں اُٹھے لیکن
راستہ بھول گئے ختمِ سفر ہونے تک
کتنے شبیر حسن خاں نہ بنے جوشؔ کبھی
مر گئے کتنے سکندرؔ بھی جگرؔ ہونے تک
فیضؔ کا رنگ بھی اشعار میں آ سکتا تھا
اُنگلیاں ساتھ تو دیں خون میں تر ہونے تک
چند ذروں ہی کو ملتی ہے ضیائے خورشید
چند تارے ہی چمکتے ہیں سحر ہونے تک
دل شاعر پہ کچھ ایسی ہی گزرتی ہے فگارؔ
جو کسی قطرے پہ گزرے ہے گہر ہونے تک
…………………………
مشورہ !
٭ ایک مشاعرے کے اختتام پر جب ایک نامور شاعر کو طے شدہ معاوضے سے کم رقم دی گئی تو وہ منتظمین پر پھٹ پڑے۔
’’ میں اس رسید پر دستخط نہیں کر سکتا‘‘۔
مجازؔ بھی وہیں موجود تھے۔ وہ نہایت معصومیت سے منتظم سے بولے:
’’اگر یہ دستخط نہیں کر سکتے تو ان سے انگوٹھا ہی لگوا لو‘‘۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
پہلی غلطی معاف !
٭ تنخواہ کا لفافہ لے کر ایک مزدور خزانچی کے پاس آیا اور بولا جناب ! اس لفافہ میں تو پانچ روپئے کم ہیں ۔ خزانچی نے جواب دیا پچھلی بار تمہارے لفافہ میں پانچ روپئے زیادہ تھے تو تم میرے پاس کیوں نہیں آئے تھے ؟
مزدور نے جواباً کہا : ’’وہ آپ کی پہلی غلطی تھی ، اب میں آپ کی یہ غلطی بار بار ہرگز برداشت نہیں کرسکتا ‘‘۔
سید شمس الدین مغربی ۔ ریڈہلز
………………………………
پونے تین شاعر !
٭ ناخدائے سخن میرتقی میرؔ سے کسی نے پوچھا : ’’کیوں حضرت ! آج کل ہندوستان میں شاعر کتنے اور کون سے ہیں ؟ ‘‘۔
میرؔ نے جواب دیا ’’ڈھائی! ایک تو یہ خاکسار ، دوسرے سوداؔ اور پھر کچھ تامل کے بعد ’’آدھے خواجہ میر دردؔ ‘‘ ۔
کسی نے کہا : ’’حضرت میر سوزؔ کے بارے میں کیا خیال ہے ۔ آخر وہ بھی تو نواب آصف الدولہ کے استاد ہیں ؟‘‘
میرؔ بولے ’’خیر ، اگر ایسا ہے تو پونے تین شاعر سہی !!‘‘۔
نظیر سہروردی ۔ راجیونگر
…………………………
اُن کے لئے
٭ ایک اخبار کے اداریہ میں لکھا تھا آپ متعجب نہ ہوں اگر آج کے اداریہ میں کچھ غلطیاں نظر آئیں۔ کیونکہ بحیثیت مدیر مجھے ہر قاری کا خیال رکھنا پڑتا ہے اور آج کا اداریہ اُن قارئین کے لئے ہے جو اخبار میں غلطیاں ڈھونڈنے کے لئے اخبار پڑھتے ہیں ۔
ڈاکٹر قیسی قمر نگری ۔ کرنول
……………………………
ٹھیک ہے !
ماں ( بیٹے سے ) : تم اتنی رات دیر گئے تک کہاں گئے تھے ؟
بیٹا : میں ’’ماں کی ممتا ‘‘ فلم دیکھنے گیا تھا !
ماں : ٹھیک ہے ! اب اندر جاؤ اور ’’باپ کا غصہ دیکھو !‘‘
رضیہ حسین ۔گنج کالونی ، گلبرگہ
………………………
کیا بات کرتے ہو !
باپ : بیٹا یہ کیسی ماچیس (تیلی ) لائے جو ایک بھی نہیں جلتی …؟
بیٹا : کیا بات کررہے ہیں پاپا ، سب کی سب چیک کرکے لایا ہوں …!!
نشرح سلطانہ ۔ سنگاریڈی
…………………………