شیشہ و تیشہ

   

انور مسعودانورؔ
مہذب!
ذرا سا سونگھ لینے سے بھی انورؔ
طبیعت سخت متلانے لگی ہے
مہذب اِس قدر میں ہوگیا ہوں
کہ دیسی گھی سے بُو آنے لگی ہے
…………………………
یاور علی محورؔ
کدھر گیا ہوگا …!!
دُلہا دُلہن سے ڈر گیا ہوگا
صبح میک اپ اُتر گیا ہوگا
ہوش آتا ہے بعد شادی کے
سانحہ جب گذر گیا ہوگا
وعدہ کرکے کار کا سُسرا
بعد شادی مُکر گیا ہوگا
آئی شامت گیا دواخانہ
موت سے پہلے مرگیا ہوگا
قرض لے کر وہ یوں فرار ہوا
سوچتا ہوں کدھر گیا ہوگا
وہ مسافر تھا خوشبوؤں کا مگر
بدبو بدبو جدھر گیا ہوگا
رہتے تھے منتظر جو مہماں کے
دَور آخر کدھر گیا ہوگا
میٹرو راستہ نہ بدلے گی
رونا سب بے اثر گیا ہوگا
مونچھ والوں پہ تھا بہت بھاری
چوٹی والوں سے ڈر گیا ہوگا
یوں تو دعوت تھی ایک ساتھی کی
سارا حلقہ مگر گیا ہوگا
وہ تو گِرجائے گا جہنم میں
دُور محورؔ سے گَر گیا ہوگا
…………………………
دہلی اور لکھنو میں فرق …!
٭ ’’مرزا غالب دوستوں کی محفل میں بیٹھے تھے اور دہلی اور لکھنو کی اردو میں فرق پر گفتگو جاری تھی کہ کسی نے مرزا غالب سے پوچھا:
حضور’’میرا قلم ‘‘صحیح ہے یا ’’میری قلم ؟‘‘
مرزا غالب نے کہا:
عورت لکھے تو ’’میری قلم‘‘
مرد لکھے تو ’’میرا قلم‘‘
اسی طرح کسی نے پوچھا: ’’جُوتا صحیح ہے یا جُوتی؟ ‘‘
ایک صاحب کہنے لگے:’’بھائی مرزا تو یہی کہیں گے کہ عورت پہنے تو جُوتی اور مرد پہنے تو جُوتا…!‘‘۔
مرزا غالب نے جواب دیا:’’جی نہیں!زور سے پڑے تو جُوتا، آہستہ پڑے تو جُوتی۔‘‘
ابراہیم ۔ گاندھی نگر
…………………………
کوئی غم نہیں !
معشوقہ ( عاشق سے ) جان ! جب ہماری شادی ہوجائیگی ، میں تمہاری ساری تکلیف غم اور پریشانیاں بانٹ لوں گی ۔
عاشق : مجھے تم سے یہی امید ہے ، لیکن میری زندگی میں کوئی پریشانی نہیں ہے !
معشوقہ : ہاں ! شاید اس لئے کہ ابھی ہماری شادی نہیں ہوئی !
سید جمیل الرحمن ۔ مہدی پٹنم
…………………………
دوست کا گھر
٭ ایک آدمی اپنے دوست کے گھر گیا ۔ گھنٹی بجائی تو ایک چھوٹا بچہ باہر نکلا ۔ آدمی بولا : ’’بیٹا آپ کے ابو گھر پر ہیں ؟ ‘‘
بچہ نے کہا ’’نہیں وہ تو بازار گئے ہوئے ہیں…!‘‘۔
آدمی بولا ’’اچھا ! اپنے بڑے بھائی کو بلادو‘‘
بچہ : وہ کرکٹ کھیلنے گئے ہوئے ہیں ۔
وہ آدمی غصہ سے بولا : تو بیٹا کیا آپ اکیلے ہیں …!؟
بچہ : جی نہیں ! میں اپنے دوست کے گھر آیا ہوں…!‘‘۔
سید حسین جرنلسٹ ۔ دیورکنڈہ
…………………………
ضرورت نہیں پڑیگی!!
بیوی شوہر سے : ہمارے پڑوس میں ایک ڈاکٹر صاحب رہنے کے لئے آئے ہیں ۔ ہمیں اُن سے دوستی کرنی چاہئے ۔ پتہ نہیں کب ہمیں ڈاکٹر کی ضرورت پڑ جائے۔
شوہر : ہمیں ہماری زندگی میں اُن کی ضرورت نہیں پڑیگی !!
بیوی : ’’کیا مطلب ؟‘‘
شوہر : ’’وہ بیماری کا علاج کرنے والے ڈاکٹر نہیں ہیں بلکہ پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر ہیں‘‘۔
ڈاکٹر گوپال کوہیرکر ۔ نظام آباد
……………………………