شیشہ و تیشہ

   

انورؔ مسعود
فن کار!!
اے بندۂ ِ مزدور نہ کر اِتنی مشقت
کاندھے پہ تھکن لاد کے کیوں شام کو گھر آئے
جا کر کسی دفتر میں تُو صاحب کا ہُنر دیکھ
بیکار بھی بیٹھے تو وہ مصروف نظر آئے
…………………………
اقبال شانہؔ
مزاحیہ غزل
سہہ نہ سکا نظر کے تیری وار مرگیا
تیری قسم میں تجھ پہ لگاتار مرگیا
چھیڑی جو ڈاکٹر نے غزل اسپتال میں
دیوانی نرس ہوگئی ، بیمار مرگیا
اُلٹی ہمارے ہاتھ میں بندوق دیکھ کر
حیران فوج ہوگئی سالار مرگیا
ایک آدھ بار ہر کوئی مرتا ہے جانِ جاں
فدوی تری وفا میں کئی بار مرگیا
اُٹھا مرا جنازہ مری اپنی کار پر
میرا رقیب دوستو بے ’’کار‘‘ مرگیا
ٹکرا گیا جنون میں دیوار یار سے
دیوانے پر جو گر گئی دیوار ، مرگیا
دیکھا جو اُن کو میری زباں گنگ ہوگئی
سینے میں میرے جذبۂ گفتار مرگیا
مرحوم یار ہوگیا شانہؔ شبِ وصال
سُن سُن کے وہ جناب کے اشعار مرگیا
…………………………
مطلب نہیں سمجھا …!!
٭ ایک محفل میں مدعوئین کو چائے پیالی طشتری کے ساتھ پیش کی گئی ۔ چائے دینے والے نے آواز لگائی کہ جس کو اور چائے چاہئے کیتلی میں چائے باقی ہے دی جاسکتی ہے …!!ایک شخص نے پیالی طشتری پر رکھ کر دی چائے والے نے چائے ڈالکر دی ، دوسرے شخص نے طشتری پر پیالی اُلٹاکر دی تو سمجھا کہ چائے کی ضرورت نہیں واپس لے لی مگر ایک تیسرے شخص نے طشتری پر پیالی آڑے رکھ کر پیش کی تو چائے دینے والے نے پوچھا : ’’میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا …!؟‘‘
جواب میں اُس شخص نے کہا : ’’میرا مطلب یہ ہے کہ چائے ہے تو دو …! نہیں ہے تو کوئی بات نہیں …!!‘‘
محمد فصیح الدین ۔ کاماریڈی
…………………………
شوہر آنے تک …!!
بڑی بی : کھانا ہوگیا بیٹی …!؟
خاتون : ابھی نہیں خالہ …!
بڑی بی : بہت دیر ہوگئی بیٹی …!
خاتون : میں شوہر آنے تک کچھ نہیں کھاتی
بڑی بی : اللہ تمہارا جوڑا سلامت رکھے ، کتنی محبت ہے بیٹی تم کو شوہر سے …!!
خاتون : ویسی بات نہیں خالہ وہ روز ڈیوٹی سے آنے کے بعد پکاتے ہیں …!!
محمد مسعود علی ۔ اندول
…………………………
جمہوریت …!!
٭ حاجی شکور کے بڑے بیٹے کا کہنا ہے کہ ان کا جمہوریت پر سے ایمان سن 1988ء میں ہی اُٹھ گیا تھا، جب ہماری اسکول سے چھٹیاں ہوئیں تو رات کو کھانے کے دستر خوان پر ہم سے پوچھا گیا کہ بتاؤ بچو…!چھٹیوں پر دادا کے گھر جانا ہے یا نانا کے گھر…؟
سب بچوں نے خوشی سے یک زبان ہو کر نعرہ لگایا کہ دادا کے گھر… !
لیکن…اکیلے امی نے کہا کہ نانا کے گھر…!
اکثریت چونکہ دادا کے حق میں تھی لہذا امی کا موقف ہار گیا۔ اور ابو کے کورٹ نے بچوں کے حق میں فیصلہ سنا دیا اور ہم سب دادا کے گھر جانے کی خوشی دل میں دبا کر سو گئے۔
اگلی صبح امی نے تولیے سے گیلے بال سُکھاتے ہوئے زیر لب مسکراتے ہوئے کہا، سب بچے جلدی جلدی کپڑے بدلو۔ ہم نانا کے گھر جارہے ہیں۔ میں نے حیرت سے منہ پھاڑ کر ابو کی طرف دیکھا تو وہ نظریں چرا کر اخبار پڑھنے کی اداکاری کرنے لگے، بس میں اسی وقت سمجھ گیا تھا کہ…جمہوریت میں فیصلے عوام کی امنگوں کے مطابق نہیں، بلکہ بند کمروں میں اس وقت ہوتے ہیں جب عوام سورہی ہوتی ہے۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
سنہرا وقت …!!
٭ ایک پینشنر اپنی ملازمت کے سنہری وقت کو یاد کر رہا تھا: ’’یار کیا دور تھا! بیوی کہتی بھاڑ میں جاؤ … میں آفس چلا جاتا۔ باس کہتا: جہنم میں جاؤ میں گھر چلا آتا…!!
محمد امتیاز علی نصرت ۔ پداپلی
…………………………