احمد علوی
لیڈر … !!
پی کر لہو عوام کا ہوتے ہیں سرخ رو
بے جان ساری قوم ہے لیڈر میں جان ہے
آساں ہے پتہ رہبرانِ ملک و قوم کا
بستی میں صرف ایک ہی پختہ مکان ہے
…………………………
عبدالقدوس رضوانؔ
لوٹ کی سرکار …!!
وہ جس کو کہتے ہیں سوٹ اور بوٹ کی سرکار
دراصل وہ ہے بہت جھوٹ موٹ کی سرکار
عوام کے تو بُرے دن شروع ہو ہی گئے
کہ جب سے آئی ہے لوٹ اور کھسوٹ کی سرکار
جسے بھی دیکھو وہ ہے لوٹنے کی چکر میں
یہ لگ رہا ہے کہ ہے صرف ’’لوٹ‘‘ کی سرکار
بجز صفر کے نہ آیا کچھ اور کھاتے میں
کہاں ہے سچ کی یہ ہے صرف جھوٹ کی سرکار
ہر اک قدم پہ مری حیرتیں ہی بڑھتی ہیں
عجیب تر ہے یہ رضوانؔ کھوٹ کی سرکار
…………………………
جانے کے بعد …!!
٭ مہمان ( معصوم لڑکی سے ) آج کی دعوت میں بھلا تمہارا کیا کام ہے …؟
معصوم لڑکی : میرے ذمے دعوت ختم ہونے کے بعد کا کام ہے …!!
مہمان : وہ کیا ہے …!؟
لڑکی : مہمانوں کے چلے جانے کے بعد چمچے گننے کا …!!
خورشید جہاں بیگم ۔ عادل آباد
…………………………
چائے کی پتی …!!
٭ ایک شخص کی بیوی کا انتقال ہوگیا۔تعزیت کرنے والوں میں سے ایک شخص نے شوہر سے پوچھا کہ آپ کی بیوی کیسے انتقال کر گئی؟
اس شخص نے جواب دیا: بیچاری نے چائے پی اور اس کا انتقال ہوگیا۔
کچھ دیر خاموشی رہی پھر پوچھنے والے شخص نے دھیرے سے پوچھا…!!!!!!
’’چائے کی پتی بچی ہے کیا…!!‘‘
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
میں زندہ ہو !!
بیوی شوہر سے : تم بستر میں گھڑی رکھ کر کیوں سوتے ہو ؟
شوہر : گھڑی کی ٹک ٹک کی آواز سے مجھے پتا چلتا ہے کہ میں زندہ ہوں ۔
داؤد اسماعیل ۔ گول بنگلہ آرمور
…………………………
کسی کا بُرا ! !
٭ بیوی نے اپنے شوہر سے کہا کبھی آپ نے سونچا ہے میری شادی کسی اور سے ہوتی تو کیا ہوتا ؟
شوہر نے کہا ’’نا بابا ! میں کسی کا بُرا کیوں سونچوں گا !!‘‘
رباب جلیس الرحمن ۔ گلبرگہ شریف
……………………………
کیا سمجھے !!
٭ گھر کی مالکن نوکر کو ڈانٹتے ہوئے ’’تم نے آج ایک مہنگی اور خوبصورت پھول دان توڑ دیا ۔ تمہارے جیسا غیر ذمہ دار اور لاپرواہ آدمی کو کہیں نہیں دیکھا ، آئندہ تم نے ایسی کوئی حرکت کی تو اتنے جوتے سر پر ماروں گی کہ سر گنجا ہوجائیگا‘‘۔
نوکر : ’’جی سمجھ گیا !‘‘
’’کیا سمجھے ‘‘ مالکن چلائی …’’یہی کہ مالک گنجے کیوں ہیں !!‘‘۔ نوکر ادب سے بولا ۔
ڈاکٹر گوپال کوہیرکر ۔ نظام آباد
……………………………
غلط اندازے
٭ ایک بھکاری سڑک پر لنگڑا لنگڑا کر چل رہا تھا۔ سامنے سے تین دوست آ رہے تھے۔ بھکاری کو اس طرح چلتے دیکھ کر پہلے دوست نے کہا۔ ’’یار! دیکھو بیچارے بھکاری کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی ہے‘‘۔
دوسرے دوست نے کہا: ’’نہیں یار! مجھے لگتا ہے کہ اس کی ٹانگ مفلوج ہو گئی ہے‘‘۔
یہ سن کر تیسرا دوست بولا: ’’تم دونوں غلط اندازے لگا رہے ہو۔ مجھے لگتا ہے کہ اس کی ٹانگ کو پولیو ہو چکا ہے‘‘۔
اس بات پر تینوں دوستوں میں تکرار ہونے لگی۔ بلآخر انہوں نے فیصلہ کیا کے وہ بھکاری سے ہی پوچھ لیتے ہیں، وہ تینوں بھکاری کے پاس گئے اور اس سے پوچھا۔ ’’بھائی صاحب! یہ آپ کی ٹانگ کس طرح ٹوٹی؟‘‘
بھکاری (غصے سے): ارے! میری ٹانگ نہیں بلکہ میرا جوتا ٹوٹا ہوا ہے۔
عکرمہ عبداﷲ العیدروس۔ ممتاز باغ
………………………………