شیشہ و تیشہ

   

دلاور فگارؔ
غزل ہوتی ہے …!!
اک دوات ایک قلم ہو تو غزل ہوتی ہے
جب یہ سامان بہم ہو تو غزل ہوتی ہے
مفلسی عشق مرض بھوک بڑھاپا اولاد
دل کو ہر قسم کا غم ہو تو غزل ہوتی ہے
بھوت آسیب شیاطین اجنہ ہمزاد
ان بزرگوں کا کرم ہو تو غزل ہوتی ہے
شعر نازل نہیں ہوتا کبھی لالچ کے بغیر
دل کو اُمید رقم ہو تو غزل ہوتی ہے
تندرستی بھی ضروری ہے تغزل کے لئے
ہاتھ اور پاؤں میں دم ہو تو غزل ہوتی ہے
پونچھ کتے کی جو ٹیڑھی ہے تو کچھ بھی نہ بنے
اور تیری زلف میں خم ہو تو غزل ہوتی ہے
صرف ٹھّرے سے تو قطعات ہی ممکن ہیں فگارؔ
ہاں اگر وسکی و رم ہو تو غزل ہوتی ہے
مرسلہ : نجیب احمد نجیبؔ
…………………………
نمک پارے
٭ اپنی اولاد کو اپنا دوست بناکر اچھے انسان بنادو ورنہ بُرے لوگ اُنھیں اپنا دوست بناکر بُرے انسان بنادیں گے ۔
٭ جمائی وہ واحد وقت رہتا جب شادی شدہ انسان اپنا مُنہ پورا کھول سکتا ۔
٭ شادی ایک ایسا معاہدہ تھا جس میں مرد کی بیچلر کی ڈگری چلے جاتی اور عورت کو گھر کے ماسٹر کی ڈگری مل جاتی ۔
٭ باس ایک ایسا شخص ہوتا جو جس دن آپ آفس دیر سے آئے اُس دن جلدی آجاتا اور جس دن آپ جلدی آفس آگئے اُس دن وہ دیر سے آتا ۔
٭ بیوی کے میک اپ کا خرچہ برداشت نہیں ہوتا اور بغیر میک اپ کے بیوی برداشت نہیں ہوتی ۔
مظہر قادری ۔ حیدرآباد
…………………………
سلوگن کی دنیا …!!
٭ گول گپے کے ٹھیلے پر ایک سلوگن لکھا تھا … ! ’’گول گپے کھانے کے لئے دِل بڑا ہو نہ ہو، منہ بڑا رکھیں، پورا کھولیں…!!‘‘۔
٭ پھل والے کے یہاں تو غضب کا فقرہ لکھا دیکھا… ! ’’آپ تو بس صبر کریں، پھل ہم دے دیں گے…!!‘‘
٭ گھڑی کی دوکان پر تو ایک زبردست فقرہ دیکھا… ! ’’بھاگتے ہوئے وقت کو اپنے بس میں رکھیں، چاہے دیوار پر ٹانگیں، یا ہاتھ پر باندھیں…!!‘‘
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
’’نٹورے … فٹورے‘‘
٭ کالج میں ایک اسٹوڈنٹ نے انگریزی کے پروفیسر سے پوچھا۔ سر ’’نٹورے‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ ’’نٹورے‘‘ پروفیسر نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا اور اُسے ٹالنے کیلئے کہا: ’’ ٹھیک ہے میں تجھے بعد میں بتاتا ہوں، میرے آفس میں آجانا‘‘۔ یہ وہاں بھی پہنچ گیا، بتائیے سر،’’ نٹورے‘‘ کا مطلب؟ پروفیسر نے کہا میں تجھے کل بتاتا ہوں۔ پروفیسر صاحب رات بھر پریشان رہے، ڈکشنری میں ڈھونڈا، انٹرنیٹ پر ڈھونڈا۔ دوسرے دن پھر وہی سر، ’’ نٹورے‘‘ کا مطلب؟ اب پروفیسر صاحب اُس سے دوری بنانے لگے اور اِسے دیکھتے ہی اِس سے کترا کے نکلنے لگے۔ لیکن یہ اسٹوڈنٹ اُن کا پیچھا چھوڑنے کو تیار ہی نہیں تھا۔
ایک دن پروفیسر صاحب نے اس سے پوچھا جس ’’ نٹورے‘‘ لفظ کے بارے میں تم پوچھ رہے ہو، یہ کونسی زبان کا لفظ ہے؟ اس نے جواب دیا: انگلش۔ پروفیسر نے کہا اسپیلنگ بولو۔اُس نے کہا: N-A-T-U-R-E یہ سنتے ہی پروفیسر صاحب کے غصے کی آگ اُن کے دماغ تک پہنچ گئی کہنے لگے ’’حرامخور! ہفتے بھر سے میرے جی کو جنجال میں ڈال رکھا ہے۔ اس ٹینشن میں میں بھوکا پیاسا رہا، رات رات بھر جاگا اور تو نے ’’نیچر‘‘ کو ’’نٹورے… نٹورے‘‘ بول بول کر مجھے پریشان کر رکھا ہے۔ ٹھہر تجھے کالج سے ہی ابھی نکلواتا ہوں‘‘۔کہنے لگا، نہیں سر، میں آپ کے پاؤں پڑتا ہوں، اب میں دوبارہ ایسا کچھ نہیں پوچھوں گا۔ پلیز مجھے کالج سے نہ نکالیں ، میرا ’’فٹورے۔ F-U-T-U-R-E‘‘ برباد ہوجائیگا …!! پروفیسر نے پوچھا میرے باپ اب یہ فٹورے کیا ہے اسپلنگ بتاؤ ؟لڑکا بولا F-U-T-U-R-E…یہ سن کر پروفیسر صاحب دھڑام سے نیچے گر پڑے اور آخری اطلاع آنے تک بیہوش تھے ۔
سید مشتاق العیدروس ۔ بیجاپور
…………………………