شیشہ و تیشہ

   

سید معینؔ اختر نقوی
اُردو …!!
اُردو کو فارسی نے شرابی بنا دیا
عربی نے اِس کو خاص تُرابی بنا دیا
اہلِ زباں نے اِس کو بنایا بہت ثقیل
پنجابیوں نے اِس کو گلابی بنا دیا
دہلی کا اِس کے ساتھ ہے ٹکسال کا سلوک
اور لکھنو نے اِس کو نوابی بنا دیا
بخشی ہے کچھ کرختگی اِس کو پٹھان نے
اِس حسنِ بھوربن کو صوابی بنا دیا
باتوں میں اِس کی ترکی بہ ترکی رکھے جواب
یوں ترکیوں نے اِس کو جوابی بنا دیا
قسمت کی بات آئی جو تو رانیوں کے ہاتھ
سب کی نظر میں اِس کو خرابی بنا دیا
حرفِ تہجی ساری زبانوں کے ڈال کر
اردو کو سب زبانوں کی چابی بنا دیا
ہم اور ارتقاء اِسے دیتے بھی کیا معینؔ
اتنا بہت ہے اِس کو نصابی بنادیا
…………………………
آج کے زمانے میں …
دہشت گردی : اقلیتی فرقہ کا نیا نام
شرافت : شرپسندوں کی تہذیب
جہیز : تحفہ کے نام پر بھیک
دوستی : مطلب پرستی کی چادر
بیوی : جیب کی پجارن
موبائیل فون : عاشقوں کا قاصد
آج کے اصلاح کار : سب سے بڑے کینہ کپٹ رکھنے والے ۔
آج کی تعلیم : مکڑی کے جال کی طرح
غلام مصطفی عرشی ۔ نرمل
…………………………
سلوگن کی دنیا …!!
٭ ایک نجومی (جیوتشی) نے اپنے بورڈ پر سلوگن کُچھ یوں لکھوایا…! ’’آئیے… صرف 100 روپیہ میں اپنی زندگی کے آنے والے ایپیسوڈ دیکھئے…!!‘‘
٭ شراب کی دکان پر لکھا تھا… ! ’’شراب کی بوتل خود خالی ہو کر دوسروں کو فل کر دیتی ہے… ‘‘
٭ بالوں کی ایک کمپنی نے تو اپنے ہر پروڈکٹ پر یہ لکھوا کر حد ہی کر دی… ! ’’ہم بھی بال بال بچاتے ہیں…!!‘‘
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
بحر مردار !!
٭ دوست شیخیاں مار رہے تھے پہلا بولا میرے ماموں بہت بڑے آدمی تھے بحرہند انھوں نے کھودا تھا اور مٹی سے کوہ ہمالیہ بنایا۔
دوسرا بولا ’’تم نے بحر مردار کا نام سنا ہے ‘‘
پہلا دوست بولا ’’ہاں ہاں سنا ہے ‘‘
میرے ماموں نے ہی اسے مارا تھا ، دوسرا دوست بولا …!!
عاتکہ احمد ۔ چندرائن گٹہ
…………………………
دوبارہ !!
بچہ ( مٹھائی فروش سے ) ’’دس روپئے کی مٹھائی دینا بالکل ویسی ہو جیسی پچھلے ہفتہ دی تھی ‘‘مٹھائی والا ( دوسرے آدمیوں سے ) ’’دیکھا ! میری مٹھائی کتنی اچھی ہوتی ہے !‘‘
بچہ ’’ہاں ہاں ! بالکل ویسی ہی دینا ہمارے ہاں کچھ مہمان آئے ہوئے ہیں امّی چاہتی ہیں کہ وہ دوبارہ نہ آئیں…!!‘‘۔
ایم اے وحید رومانی۔ نظام آباد
…………………………
بہادر
٭ ایک محفل میں یہ بحث چھڑگئی کہ مرد حضرات اپنی بیویوں سے زیادہ ڈرتے ہیںیا خواتین اپنے شوہروں سے ۔ آزمائش کے لئے تمام مرد حضرات سے درخواست کی گئی کہ جو حضرات اپنی بیویوں سے ڈرتے ہیں وہ کھڑے ہوجائیں۔ محفل میں موجود سارے مرد کھڑے ہوگئے لیکن ایک صاحب بہت اطمینان سے اپنی کرسی پر بیٹھے رہے تمام مردوں کو ان کی قسمت پر بڑا رشک آیا ان صاحب کی بہت تعریفیں ہوئیں کچھ دیر بعد ایک صاحب نے ان کو علحٰدگی میں لے جاکر رازدارانہ انداز میں پوچھا …! : ’’کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ وہ کون سا نسخہ ہے جس پر عمل کرکے آپ کو اپنی بیوی سے کوئی خوف محسوس نہیں ہوتا…!؟‘‘۔
ان صاحب نے اِدھر اُدھر دیکھا پھر بے چارگی سے بولے یار کیا کرتا میری بیگم نے مجھ سے کہہ دیا تھا کہ خبردار کرسی سے مت اُٹھنا…!!
محمد رشید ۔ نشیمن نگر ، پھول باغ
…………………………