انور ؔمسعود
اُوں ہوں !!
ووٹوں سے کہ نوٹوں سے کہ لوٹوں سے بنے ہیں
یہ راز ہیں ایسے جنہیں کھولا نہیں کرتے
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
اندر کی جو باتیں ہیں ٹٹولا نہیں کرتے
…………………………
فرید سحرؔ
ہولا ہے سالا …!!
مرے سالوں میں جو چھوٹا ہے سالا
بہت ہی نیک اور اچھا ہے سالا
مگر اک دوست کا غاٹا ہے سالا
زباں کا بھی بہت ہلکا ہے سالا
پُھلا کر مُنہ سدا رہتا ہے لیکن
غزل سُن کر مری ہنستا ہے سالا
محلے میں بہت ہے دھاک اُس کی
مگر گھر والی سے ڈرتا ہے سالا
ذرا سی ناک کیا بھدی ہے اُس کی
اُسے سب کہتے ہیں نکٹا ہے سالا
ہر اک محفل کو ہے وہ لُوٹ لیتا
کلام اُستاد کا پڑھتا ہے سالا
وہ بچپن کی محبت مر گئی اب
بہن کا حق نہیں دیتا ہے سالا
ہمیشہ سچ جو کہتا ہوں سحرؔ میں
مُجھے سب کہتے ہیں ہولا ہے سالا
بنا ہے کونسلر جب سے سحرؔ وہ
’’سیاسی چالوں میں اُلجھا ہے سالا‘‘
…………………………
فطرت …!!
٭ ایک مرد ہی دوسرے مرد کی فطرت جانتا ہے۔مثال کے طور پر؛
گاہک: مجھے ایک لیڈیز سوٹ چاہئے …!
دوکاندار: بیگم کے لیے چاہئے یا پھر کوئی اچھا سا دکھاؤں…!؟
ابن القمرین ۔ مکتھل
…………………………
…خبر پہ شوشہ …
’’آواز پر فدا …!!‘‘
٭ کہتے ہیں صورت شکل، قد و خال، چہرے مہرے اور ناز و ادا پر فدا ہونا شاید مرد کی فطرت میں داخل ہے۔ مشتاق احمد یوسفی نے اس خیال کو یوں بیان کیا : ’’عورتیں دوسری عورتوں کی شکایت کرتے نہیں تھکتیں جبکہ مرد دوسری عورتوں کی تعریف کرتے نہیں تھکتے… مرد واقعی عظیم ہیں ‘‘
ایک تازہ خبر کے مطابق تلنگانہ کے عادل آباد ٹاؤن سے تعلق رکھنے والا ایک نوجواں اس سلسلہ میں ایک قدم اور آگے نکل گیا۔ یعنی وہ لڑکی کو دیکھے یا ملے بغیر صرف آواز پر فدا ہوگیا۔ خبر کے مطابق یہ نوجواں کا کسی لڑکی سے فون پر رابطہ میں آیا۔ کچھ دنون تک فون پر پیار محبت کی باتیں ہوتی رہیں۔ اعتماد حاصل ہونے کے بعد لڑکی نے باور کرایا کہ وہ ایک رئیس خاندان سے ہے۔ کورٹ سے اپنی خاندانی جائیداد حاصل کرنے کے لیے اِسے ایک بڑی رقم کی ضرورت ہے۔ اسیر عشق لڑکے نے آٹھ لاکھ روپئے لڑکی کو بھیج دیئے۔ رقم حاصل کرنے کے بعد رابطہ ٹوٹا تو لڑکا پولیس سے رجوع ہوا۔ تحقیق اور گرفتاری ہوئی تو پتہ چلا یہ تو ایک لڑکا ہے جو فون پر لڑکی کی آواز میں نوجوانوں کو چونا لگاتا ہے۔ عادل آباد ٹاؤن کا یہ نوجوان لڑکی کی آواز پر فدا ہوگیا اور بھاری رقم گنوا بیٹھا۔
میرے نالہ سن کے فرماتے ہیں وہ
یہ اِسی کی دکھ بھری آواز ہے
کے این واصف۔ ریاض
…………………………
بھیڑیں
ریاضی کے استاد ( بچوں سے ) : اگر کسی جگہ 12 بھیڑیں بندھی ہوں اور اُن میں سے تین بھاگ جائیں تو کتنی بھیڑیں باقی بچیں گی ؟ ایک بچے نے کھڑے ہوکر کہا…: ’’ایک بھی نہیں !‘‘
اُستاد ( ناراضگی سے ) : ’’لگتا ہے ، تم ریاضی کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتے …؟ ‘‘
بچے نے کہا : ’’اور مجھے لگتا ہے کہ آپ بھیڑوں کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتے !!‘‘
سید حسین جرنلسٹ ۔ دیورکنڈہ
…………………………
کہاں سے جاتی ہے !
ایک ماں اپنے بیٹے سے :بنٹی بیٹا ! انسان کی جان کہاں سے نکلتی ہے ؟بنٹی : کھڑکی سے !
ماں : وہ کیسے ؟بنٹی : کل آپ نے گھر کی بیل بجائی تو پاپا نے پڑوسن آنٹی سے کہا…: ’’جان ! تم کھڑکی سے نکل جاؤ ‘‘۔
ڈاکٹر وثیق الرحمن فاروقی ۔ قاضی پورہ
…………………………