دماینتی دتہ
وہ ایک پُل کے کنارے بیٹھی کیمرے کے سامنے مسکرا رہی تھی، اس کے سَر پر نیلگوں صاف آسمان تھا اور پل کے نیچے ایک دریا بہہ رہا تھا اور وہ اپنی سرخ ساڑی کے کنارے کو سر سے اوپر کی طرف تھامے ہوئے تھی جیسے کہ وہ ہوا کی تیزی سے بچنے کی کوشش کررہی ہو۔ اگر کہا جائے کہ ایک تصویر ایک ہزار الفاظ کہنے کے مماثل ہے تو پھر یہ 20 ہنستی مسکراتی تصویر ایک میٹھی اور اچھوتی کہانی، نوشادی شدہ خاتون کی تصویر کہہ رہی ہے اور جو چیز اس تصویر میں نہیں کہیں کہی گئی ہے، وہ یہ کہ اس (نوشادی شدہ خاتون) کی آخری تصویر ہے۔ 16 اگست کو (نئی شادی شدہ خاتون) رُوپالی پاٹل منڈیشور بریج سے جو مدھیہ پردیش میں نرمدا ندی پر واقع ہے، بس اِک لمحہ کی لغزش نے اس ہنستی مسکراتی زندگی کو اُجاڑ دیا جبکہ وہ (روپالی) اور اس کا شوہر وہاں سیلفیاں بنانے میں مصروف تھے۔ اور اسی دن، ماں اور بیٹی نے اس دریا کے ساحل کنارے ملاقات کی اور وہ بھی سیلفیاں کلک کرنے میں مشغول تھے۔ یاد رہے کہ وہ اس ملک میں بالکل لیٹسٹ سمجھے جاتے تھے اور جہاں وہ سیلفیاں لے رہے تھے، وہ پوری دنیا کا ’’سیلفی اموات کا اڈا‘‘ سمجھا جاتا ہے۔
اور یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ یہ اموات صرف سیلفیوں سے ہی نہیں ہورہی ہے بلکہ دنیا میں آئے نئی ڈیجیٹل انقلاب کا سب سے پیارے اور اچھوتے مقام کی حیثیت کا حامل ہے جو ہندوستان میں نہایت ہی عجیب و غریب طریقہ سے جگہ لے رہا ہے۔ ایک خوفناک رشتہ داری وضع ہورہی ہے جو جدید (اور اختراعی) ٹیکنالوجی اور انسانی رویوں و مزاج کے مابین خوفناک طریقہ سے ہورہی ہے۔ ماہ اگست میں بہار و مغربی بنگال سے نہایت خوفناک اسٹنٹس (کرتب) ’’ٹک ٹاک‘ پر داخل کئے گئے جس میں بہ نظر خود بہادروں کو موت کی اَبدی نیند سُلا دیا۔ کئی ہفتوں قبل مہاراشٹرا میں ایک کمسن لڑکے نے اپنے ہی بھائی کو صرف اس وجہ سے چاقو گھونپ دیا کہ وہ اسے آن لائن گیم کھیلنے نہیں دے رہا تھا۔ اسی طرح راجستھان میں ایک 60 سالہ معمر شخص نے اپنی جیب میں فون رکھ کر آرام کرنے کیلئے بیڈ (Bed) پر ایسا لیٹا کہ وہ دوبارہ اُٹھ نہیں سکا یعنی فون نے ایسی چیخ ماری کہ وہ چیخ بھی نہیں سکا اور نئی دہلی میں ایک آدمی نے اپنے تین سالہ بھتیجے کو روند ڈالا، وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے فون پر ڈرائیونگ کے دوران بات کرنے میں مشغول تھا اور بس… جھارکھنڈ میں واٹس ایپ پر گاؤں میں اتنی زیادہ افواہیں پھیلائی گئیں کہ ہجوم میں تشدد بھڑک اُٹھا
اور انہوں نے عالم غیض و غضب میں ایک ناکردہ گناہ آدمی کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کر ڈالا۔ اسی طرح اُترپردیش میں ’’ویڈیو کلپنگ‘‘ گینگ ریپ یعنی اجتماعی عصمت ریزی کی ویڈیو کلپنگ موبائیل فونس پر 100 روپئے کے بہ عوض فروخت ہونے لگیں جو اخلاق سے عاری خرید و فروخت کرنے والے انسانوں کی اخلاق باختگی کا ایک چھوٹا سا نمونہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اسکرین شاٹس، کلکس، ٹیاپس اور ایموجیس اور دیگر چیزیں، اصل حقائق سے معمور زندگی اور سطحی زندگی کے درمیان نہایت ہی باریک فرق موجود ہے بلکہ اسے نہایت باریک لکیر قرار دیا جاسکتا ہے، وہ اب مدھم سے معدوم ہوتی نظر آرہی ہے۔ ایک حوصلہ شکن لفظ برائے غیرقدرتی تعلق، ڈیجیٹل ڈیوائس میں رواج پاتا نظر آرہا ہے جو کچھ اور نہیں بلکہ ’’انٹرنیٹ ایڈکشن‘‘ یعنی انٹرنیٹ کا خبط ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس خبط کو قومی سروے میں جان بوجھ کر نظرانداز کردیا گیا ہے۔ اس کے برخلاف چین، جنوبی کوریا اور جاپان اس خبط کو فوری سے پیشتر پہچان کر اس کا حل ڈھونڈنے کی سعی جمیلہ میں جٹ گئے ہیںاور اس خبط کو ایک بھیانک وبائی مرض کی حیثیت دے دی ہے۔ مئی 2019ء میں ان لائن گیمنگ کا خبط ہو یا پھر غیرصحت مندانہ آن لائن گیمس تک بہ آسانی رسائی نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کو مداخلت کرنے پر مجبور کردیا اور اسے (آن لائن گیمس) ایک ’’اچھوت بیماری‘‘ قرار دیا جو ’’آن لائن گیمنگ‘‘ کے خبط کے مماثل ہے۔ کُل ہند ادارہ برائے میڈیکل سائنس ، دہلی کے ہیڈ ڈاکٹر راجیش ساگر جو شعبہ ماہر نفسیات کے ہیں، کہا کہ ’’ڈیجیٹل بے ضابطگی ہندوستان میں بہت زیادہ عروج پا رہی ہے‘‘، اور یہی نہیں بلکہ یہ نہایت تیزی سے ہندوستان میں ابھرتی ہوئی ’’بیماری ہے جو نئے انداز زندگی کی وجہ سے ہے۔مارکٹ ریسرچر کاروی نے فیلڈ ورکرس کو 9 شہروں کو روانہ کیا جس میں دہلی، لکھنؤ، ممبئی، اندور، کولکتہ، پٹنہ، چینائی، بنگلورو اور وجئے واڑہ شامل ہیں۔ انہوں نے 1,648 مرد و زن سے جو 18 تا 55 سال کی عمر کے ہیں، ان سے صحت و بیماری سے متعلق سوالات کئے جن میں سے 70% افراد ایگزیکٹیو یا بزنس مالکین یا گریجویٹ طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے جوابات میں سروے میں بتایا کہ وہ ڈیجیٹل ڈیوائس کی نحوست سے واقف ہیں اور ان میں 47% افراد نے قبول کیا کہ وہ اپنے شیطانی آلہ پر بہت زیادہ وقت گزارتے ہیں اور زائد از 62% نے مانا کہ وہ غذائی اوقات میں بھی اس شیطانی آلہ کے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر گروپ ایک فرد جو 5 پر مشتمل تھا، قبول کیا کہ وہ حد سے زیادہ سوشیل میڈیا کے استعمال سے بیزار ہوچکے ہیں۔ اس کی وجہ 7 تا 10 گھنٹے کمپیوٹرس، اسمارٹ فونس یا ٹیبلٹس نے ان کی ریڑھ کی ہڈی میں درد پیدا کردیا ہے اور اس کی وجہ سے روزانہ کی اساس پر پین کلرس Pain Killer Tablets کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف 28% نے کہا کہ ڈپریشن، پریشانی ،غصہ ، احساس گناہ ان میں موجود ہوتا ہے۔ 64% مرد و خواتین نے کہا کہ انہیں اس شیطانی آلہ نے ایک دوسرے کی جسمانی معیت میں (زن و شو) رہنے کے جنسی لطف سے محروم کردیا ہے۔ اور اِدھر 45% نے کہا کہ وہ موبائیل فونس پر گزارے جانے والے وقت کو ’’کم سے کم ترین‘‘ کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ہر ہندوستانی نوجوان دن بھر میں 150 مرتبہ موبائل فون چیک کرتا ہے اور 52 منٹ ویڈیو دیکھنے میں گزارتا ہے۔ 200 ایپس ڈاؤن لوڈ کرتا ہے اور ہفتہ بھر میں 23 گھنٹے Texting میں گزارتا ہے حتی کہ ڈرائیونگ کے موقع پر بھی وہ ٹیکسٹ کرنے اور بات کرنے سے نہیں چوکتا۔ ہر دور میں سے ایک نوجوان دن بھر میں پانچ گھنٹے سے کم انٹرنیٹ پر رہنے سے باز نہیں رہ سکتا۔ 95% ہندوستانیوں کیلئے موبائل فون ان کی ’’زندگی‘‘ بن چکا ہے۔ اے آئی آئی ایم ایس، بھوپال اور آئی آئی ٹی، کانپور کے ماہرین نے کہا کہ 50% سیلفی اموات پوری دنیا میں سے صرف ہندوستان میں ہوتی ہیں۔ ’’سیلفی زونس کو ہرگز ہرگز بھی ’’ٹورسٹ علاقہ‘‘ قرار نہ دیا جائے، بطور خاص سمندری علاقہ، پہاڑوں کی چوٹیاں اور بلند و بالا آسمان سے باتیں کرنے والی عمارات کو ٹورسٹ علاقہ قرار نہ دیا جائے۔ہندوستان کو ضرور بہ ضرور نئی ٹیکنالوجی سے لیس ہونا چاہئے لیکن ڈاکٹرس اس بات کو لے کر پریشان ہیں کہ اس اسمارٹ فون کی تباہ کاریوں میں انسانی رویوں پر برا اثر ڈالا ہے جس کی وجہ سے بے خوابی، اہم اُمور کی انجام دہی سے غفلت، چڑچڑاپن آپس میں ایک دوسرے سے بیٹھک میں بات چیت خاندانی افراد اور دوست احباب سے تعلقات میں کٹوتی اور بے رغبتی اور رشتہ داروں اور رشتوں کے نبھانے میں سردمہری پیدا ہوگئی ہے۔ ’’اس (شیطانی اِسمارٹ فون) آلہ سے متاثر اشخاص کو اس حقیقت کا اِدراک ہی نہیں ہوتا کہ انہیں ایک عارضہ لاحق ہوگیا ہے اور جس کا علاج دیگر بیماریوں کے علاج کی طرح ضروری ہے تاہم وہ اس کیلئے راضی ہی نہیں ہوتے‘‘۔ ایک اسوسی ایٹ ڈاکٹر منوج کمار نے اس احساس قلبی کا اظہار کیا۔٭