شیوراج ، وسندھرا راجے حاشیہ پر

   

رشتے ہیں معتبر نہ ہی کردار معتبر
دور جدید میں کہاں اقدار معتبر
جنوبی ریاست کرناٹک میں ہوئے اسمبلی انتخابات کے بعد بی جے پی کی رہنما تنظیم آر ایس ایس نے یہ واضح کیا تھا کہ مقامی سطح کی قیادت کے فقدان نے بی جے پی کو وہاں شکست سے دوچار کیا ہے اور یہ کہ صرف ہندوتوا نظریہ اور نریندر مودی کی شخصیت انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے کافی نہیں ہے ۔ آر ایس ایس نے یہ مثال پیش کی تھی کہ کرناٹک میں کئی ریاستی وزراء کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا کیونکہ انہوں نے صرف اپنے عہدوں سے اقتدار کو محسوس کیا ہے اور عوام سے خود کو جوڑے رکھنے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے تھے ۔ یہ تاثر ظاہر کیا جا رہا تھا کہ آر ایس ایس کی اس رائے کے بعد بی جے پی مختلف ریاستوں میں مقامی قیادت کو پروان چڑھائے گی تاہم ایسا لگتا ہے کہ پارٹی اس مشورہ کے مغائر ہی کام کر رہی ہے ۔ بی جے پی نے اب ملک کی پانچ ریاستوں میں ہونے جا رہے اسمبلی انتخابات کیلئے کسی بھی چہرے کو پیش کرنے کی کوشش نہیں کی ہے ۔ جو چہرے پہلے سے موجود ہیں انہیں تو بالکل ہی حاشیہ پر کردیا گیا ہے ۔ موجودہ چیف منسٹر مدھیہ پردیش شیوراج سنگھ چوہان کو ابھی تک اسمبلی کا ٹکٹ تک نہیں دیا گیا ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ اگر بی جے پی کسی طرح مدھیہ پردیش میں اقتدار حاصل کربھی لیتی ہے ‘ جس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں ‘ تب بھی شیوراج سنگھ چوہان کو چیف منسٹر نہیں بنایا جائیگا اور اس کیلئے انہیں اسمبلی ٹکٹ سے بھی محروم کیا جاسکتا ہے ۔ اسی طرح مدھیہ پردیش کی پڑوسی ریاست راجستھان میں بھی پارٹی کی دو مرتبہ کی چیف منسٹر وسندھرا راجے سندھیا کو حاشیہ پر کردیا گیا ہے ۔ بی جے پی قائدین اور خود وزیر اعظم نریندر مودی اوروزیر داخلہ امیت شاہ انہیں خاطر میں لانے تیار نہیں ہیں۔ دو مرتبہ سے وسندھرا راجے بی جے پی کا چہرہ رہی ہیں۔ تاہم کل ہی وزیر اعظم نے راجستھان میں ایک تقریر کرتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ راجستھان میں بی جے پی کا صرف ایک چہرہ ہے اور وہ کنول کا پھول ہے ۔ وزیر اعظم نے یہ اعلان وسندھرا راجے سندھیا کی موجودگی میں کیا ۔ اس طرح یہ واضح ہوگیا ہے کہ وسندھرا راجے کو بھی اب بی جے پی برداشت کرنے تیار نہیںہے ۔
کہا جا رہا ہے یہ مسئلہ بی جے پی میں متبادل چہروں کے ابھرنے کو روکنے سے تعلق رکھتا ہے ۔ وسندھرا راجے سندھیا اس وقت بھی راجستھان کی چیف منسٹر تھیں جس وقت نریندر مودی گجرات کے چیف منسٹر تھے ۔ اسی طرح شیوراج سنگھ چوہان بھی اس وقت مدھیہ پردیش کے چیف منسٹر تھے جس وقت مودی گجرات کے چیف منسٹر تھے ۔ اس طرح یہ تاثر عام ہے کہ شیوراج سنگھ چوہان اور وسندھرا راجے سندھیا کا سیاسی قد نریندر مودی سے زیادہ کم نہیں ہے ۔ شائد اسی تاثر کو ختم کرنے اور اپنی برابری کا دعوی کرنے والوں کو حاشیہ پر کرنے کے مقصد سے ہی سیاسی اعتبار سے وسندھرا راجے سندھیا اور شیوراج سنگھ چوہان کی اہمیت کو گھٹایا جا رہا ہے اور اب انہیں ان کی کرسیوں سے بھی محروم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ جس طرح کی صورتحال مدھیہ پردیش اور راجستھان میں بی جے پی کو درپیش ہے وہ انتہائی مشکل ترین کہی جا رہی ہے ۔ مدھیہ پردیش میں حالانکہ گودی میڈیا کانٹے کی ٹکر دکھانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن یہ کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی وہاں مقابلہ ہی میں نہیںرہ گئی ہے ۔ اس کا حال مدھیہ پردیش میں بھی ہی ہوگا جو کرناٹک میں وہاں کے ووٹرس نے کیا تھا ۔ اسی طرح راجستھان میں بھی یہ تاثر عام ہوتا جا رہاہے کہ ریاست میں ہر پانچ سال میں راج ( حکومت ) بدلنے کا رواج ختم ہوجائیگا اور کانگریس وہاں اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوجائے گی ۔ بی جے پی کی داخلی رسہ کشی اس کے انتخابی امکانات کو مزید متاثر کرسکتی ہے ۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مرکز میں بی جے پی کو اقتدار میں لانے میں نریندر مودی کا سب سے اہم کردار رہا ہے ۔ تاہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ شیوراج سنگھ چوہان اور وسندھرا راجے جیسے چیف منسٹروں نے بھی اپنی اپنی ریاستوں میں بی جے پی کی کامیابی کو یقینی بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی ۔ تاہم بی جے پی اب ایک ایسی جماعت بنتی جا رہی ہے جو محض ایک شخصیت کے گرد گھومتی ہے ۔ جہاں پارٹی ملک میں اپوزیشن کے وجود کو برداشت کرنے تیار نہیں ہے وہیں پارٹی میں بھی ایسے قائدین کو برداشت کرنے تیار نظر نہیں آتی جو سیاسی قد میں کسی سے کم اہمیت نہیں رکھتے ۔